فَإِنْ أَعْرَضُوا فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ۖ إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ ۗ وَإِنَّا إِذَا أَذَقْنَا الْإِنسَانَ مِنَّا رَحْمَةً فَرِحَ بِهَا ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَإِنَّ الْإِنسَانَ كَفُورٌ
اب بھی یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو اے نبی ہم نے تم کو ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجا ہے آپ پر تو حق بات پہنچانے کی ذمہ داری ہے۔ انسان کو جب ہم اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو اس پر پھول جاتا ہے۔ اگر اس کے اپنے ہاتھوں کا کیا دھرا کسی مصیبت کی شکل میں اس پر الٹ پڑتا ہے تو وہ بہت ناشکرا بن جاتا ہے
1۔ فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَمَا اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا: پچھلی آیت میں کفار کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ قیامت کے دن سے پہلے جلد از جلد اپنے رب کی دعوت قبول کر لو، اب ان کے کفر پر اصرار کی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اگر یہ آپ کی دعوت سے منہ موڑیں تو ہم نے آپ کو ان کا نگران اور ذمہ دار نہیں بنایا کہ ہر حال میں انھیں منوا کر چھوڑیں اور نہ آپ سے اس بات کی باز پرس ہو گی کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لائے۔ 2۔ اِنْ عَلَيْكَ اِلَّا الْبَلٰغُ: آپ کا کام صرف پہنچا دینا ہے (جو آپ سرانجام دے چکے ہیں)۔ ان الفاظ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سند موجود ہے کہ آپ نے پیغام واقعی پہنچا دیا ہے اور آپ اپنی ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہو چکے ہیں۔ 3۔ وَ اِنَّا اِذَا اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً فَرِحَ بِهَا: اس آیت میں آپ کو تسلی دلائی ہے کہ ان کفار کا صرف آپ کے ساتھ یہ سلوک نہیں بلکہ ان کا ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ یاد رہے کہ دنیا کی تمام نعمتیں خواہ کتنی بڑی ہوں آخرت کے مقابلے میں چکھنے سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔ پھر ’’ رَحْمَةً ‘‘ میں تنوین بھی تنکیر اور تقلیل کے لیے ہے۔ فرمایا، انسان ایسا کم ظرف ہے کہ جب ہم اسے تھوڑی سی رحمت چکھا بھی دیتے ہیں تو یہ پھول جاتا ہے اور آپے سے باہر ہو جاتا ہے، ہمیں بھول کر اپنے آپ ہی کو سب کچھ سمجھ لیتا ہے۔ یہاں نعمت چکھانے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف فرمائی ہے، کیونکہ نعمت صرف اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، کسی کے استحقاق کی وجہ سے اسے نہیں ملتی اور لفظ ’’ اِذَا ‘‘ (جب) استعمال فرمایا، کیونکہ دنیا میں رحمت ہر انسان کو ملتی ہے۔ 4۔ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ....: اور اگر انھیں ان کے اپنے اعمال کے نتیجے میں کوئی برائی یا مصیبت آ پہنچے تو یقیناً انسان بہت ناشکرا ہے، پھر اسے ہماری کوئی نعمت یاد نہیں رہتی، بلکہ اس ایک مصیبت کی وجہ سے ہماری تمام نعمتوں کا صاف انکار کر دیتا ہے۔ جس طرح خاوند ساری عمر بیوی پر احسان کرے، پھر اس سے اس کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہو جائے تو کہتی ہے : (( مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ )) [ بخاري، الإیمان، باب کفران العشیر و کفر دون کفر : ۲۹ ] ’’میں نے تم سے کبھی کوئی خیر نہیں دیکھی۔‘‘ یہاں برائی کی نسبت اللہ کی طرف نہیں فرمائی، حالانکہ سبھی کچھ اللہ کی طرف سے ہے، کیونکہ اس کا باعث ان کے اعمالِ بد بنتے ہیں اور ’’ اِنْ ‘‘ (اگر) کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس میں مصیبت پہنچنے یا نہ پہنچنے دونوں کا امکان ہے، کیونکہ رحمت کے مقابلے میں انسان پر آنے والی مصیبتیں بہت کم ہیں۔ 5۔ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے آپ کی دعوت سے اعراض سے بھی بڑی بات کے ارتکاب کا ذکر کرکے تسلی دلائی ہے کہ جن کا مالک کے ساتھ یہ حال ہے وہ آپ سے کیا کچھ نہیں کریں گے، جیسا کہ دوسرے مقام پر یہود کے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ سلوک کا ذکر کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دلائی ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء (۱۵۳)۔ 6۔ یہاں ’’ الْاِنْسَانَ ‘‘ سے بعض مفسرین نے کافر انسان مراد لیا ہے، کیونکہ مومن ایسا نہیں ہوتا اور بعض نے فرمایا، مطلب یہ ہے کہ انسان پیدائشی طور پر ایسا ہی ہے، مگر ایمان اور عملِ صالح میں جیسے جیسے ترقی ہوتی ہے آدمی اس خصلت سے چھٹکارا حاصل کرتا جاتا ہے، ایمان کے کمال کے ساتھ وہ پوری طرح اس سے پاک ہو جاتا ہے اور مصیبت پر صبر اور نعمت پر شکر اس کی طبیعت بن جاتے ہیں، جو دونوں اس کے حق میں خیر ہی ہوتے ہیں، مگر کافر کا حال وہی رہتا ہے۔ اسی طرح کمزور ایمان کی حالت میں بھی اس بدخصلت کا اثر باقی رہتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا (19) اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوْعًا (20) وَّ اِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوْعًا (21) اِلَّا الْمُصَلِّيْنَ … اُولٰٓىِٕكَ فِيْ جَنّٰتٍ مُّكْرَمُوْنَ﴾ [ المعارج : ۱۹ تا ۳۵ ] ’’بے شک انسان تھڑدلا پیدا کیا گیا ہے۔ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جانے والا ہے۔ اور جب اسے خیر پہنچتی ہے تو بہت روکنے والا ہے۔ سوائے نماز ادا کرنے والوں کے...... یہی لوگ جنتوں میں عزت دیے جانے والے ہیں۔‘‘ یہ دوسرا قول بہتر معلوم ہوتا ہے۔