سورة الشورى - آیت 37

وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر غصہ آجائے تو درگزر کرتے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ الَّذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓىِٕرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ: ایمان و توکل کے بعد پہلے ان چیزوں کا ذکر فرمایا جن سے اجتناب ضروری ہے، وہ ہیں کبائر و فواحش اور غضب۔ ’’كبائر‘‘ کی تعریف کے لیے دیکھیے سورۂ نساء کی آیت (۳۱)۔ ’’ الْفَوَاحِشَ ‘‘ ’’ فَاحِشَةٌ ‘‘ کی جمع ہے، کوئی بھی قول یا فعل جس کی قباحت حد سے بڑھی ہوئی ہو، مثلاً زنا، قوم لوط کا عمل اور شدید بخل وغیرہ۔ (دیکھیے سورۂ بقرہ : ۲۶۸) آیت میں ’’كبائر‘‘ کا لفظ عام ہے، جس میں فواحش بھی آ جاتے ہیں، مگر ’’فواحش‘‘ کا ذکر ان سے نفرت دلانے کے لیے خاص طور پر الگ بھی فرمایا۔ شیخ عبد الرحمان السعدی نے فرمایا کہ فواحش ان بڑے گناہوں کو کہتے ہیں جن کی رغبت انسانی طبیعت میں پائی جاتی ہو۔ مزید دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۳۲)۔ وَ اِذَا مَا غَضِبُوْا هُمْ يَغْفِرُوْنَ: غصے کی حالت میں معاف کر دینے کا ذکر خاص طور پر فرمایا، کیونکہ یہ کام وہی لوگ کر سکتے ہیں جو نہایت مضبوط ارادے کے مالک ہوں، کیونکہ عموماً غصے میں آدمی عقل و ہوش سے عاری ہو جاتا ہے۔ اس حال میں اپنے آپ پر قابو رکھنا آدمی کی کمالِ عقل اور ضبطِ نفس کی دلیل ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((لَيْسَ الشَّدِيْدُ بِالصُّرَعَةِ إِنَّمَا الشَّدِيْدُ الَّذِيْ يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ )) [ بخاري، الأدب، باب الحذر من الغضب: ۶۱۱۴ ] ’’پہلوان وہ نہیں جو دوسروں کو پچھاڑ دے، پہلوان صرف وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں عفو و درگزر کی خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔ (دیکھیے آل عمران : ۱۵۹) عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : (( مَا انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ فِيْ شَيْءٍ يُؤْتٰی إِلَيْهِ حَتّٰی يُنْتَهَكَ مِنْ حُرُمَاتِ اللّٰهِ فَيَنْتَقِمُ لِلّٰهِ )) [بخاري، الحدود، باب کم التعزیر و الأدب ؟ : ۶۸۵۳ ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کسی معاملے کا انتقام نہیں لیا جو آپ سے کیا گیا۔ ہاں! اللہ تعالیٰ کی حرمتوں میں سے کسی کو توڑا جاتا تو آپ اللہ کی خاطر انتقام لیتے۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۳۳، ۱۳۴) خلفائے راشدین میں بھی یہ وصف بدرجہ کمال موجود تھا، جیسا کہ ان کی سیرت سے ظاہر ہے۔