سورة الشورى - آیت 23

ذَٰلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۗ وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

یہ وہ چیز ہے جس کی خوشخبری اللہ اپنے ان بندوں کو دیتا ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اے نبی ان لوگوں سے فرما دو کہ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں، البتہ قرابت کی محبت ضرور چاہتا ہوں، جو کوئی بھلائی کرئے گا ہم اس کی بھلائی میں اور اضافہ کردیں گے بے شک اللہ بڑا درگزر کرنے والا اور قدر دان ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

ذٰلِكَ الَّذِيْ يُبَشِّرُ اللّٰهُ عِبَادَهُ....: یہ پانچویں وجہ ہے۔ ’’ ذٰلِكَ ‘‘ اسم اشارہ بعید اس ثواب کی عظمت کے بیان کے لیے ہے۔ جنتوں کے باغوں اور ان کی نعمتوں کی طرف اشارہ کرکے ان کی طرف دوبارہ توجہ دلانے سے مقصود ان کی عظمت کا اظہار ہے اور ساتھ ہی ایمان اور عملِ صالح کا ذکر اس لیے ہے کہ اتنی بڑی نعمتوں کے حصول کے لیے ایمان اور عمل صالح ضروری ہے۔ قُلْ لَّا اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى:’’ قَرِبَ يَقْرَبُ قُرْبًا وَ قُرْبَانًا وَ قِرْبَانًا‘‘ (س، ک) قریب ہونا۔ ’’ قُرْبٰي‘‘ اور ’’قَرَابَةً ‘‘ بھی مصدر ہیں، جیسے ’’ بُشْرٰي‘‘ اور ’’ رُجْعٰي‘‘ ہیں۔ ان کا معنی رشتہ داری اور قرابت ہے۔ رشتہ دار اور قرابت دار کے لیے ’’ذوالقربیٰ‘‘ (قرابت والا) کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ ﴾ [ بنی إسرائیل : ۲۶ ] ’’اور رشتہ دار کو اس کا حق دے۔‘‘ ’’ فِي الْقُرْبٰى ‘‘ میں ’’ فِيْ‘‘ تعلیل کے لیے ہے : ’’أَيْ مِنْ أَجْلِ الْقُرْبٰي‘‘ یعنی رشتہ داری کی وجہ سے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِيْ هِرَّةٍ حَبَسَتْهَا، حَتّٰی مَاتَتْ جُوْعًا، فَدَخَلَتْ فِيْهَا النَّارَ )) [ بخاري، المساقاۃ، باب فضل سقي الماء : ۲۳۶۵ ] ’’ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا۔ اس نے اسے باندھ کر رکھا، یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی، تو اس کی وجہ سے وہ آگ میں داخل ہو گئی۔‘‘ یعنی آپ کہہ دیں کہ میں اس تبلیغِ دین پر تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا، سوائے رشتہ داری کی وجہ سے دوستی کے کہ کچھ نہ سہی، کم از کم میرے اور تمھارے درمیان جو قرابت اور رشتہ داری ہے اس کی وجہ سے میرا حق ہے کہ مجھ سے دوستی رکھو، اس حق کا مطالبہ میں تم سے ضرور کرتا ہوں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ تم میری بات مان لیتے، اگر نہیں مانتے تو سارے عرب میں سب سے بڑھ کر دشمنی تو نہ کرو۔ کم از کم اس قرابت کا تو خیال رکھو جو میرے اور تمھارے درمیان ہے۔ جیسا کہ ابوطالب اگرچہ ایمان نہیں لایا مگر وہ قرابت کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتا رہا۔ آیت کا یہی مطلب ترجمان القرآن ابن عباس رضی اللہ عنھما نے بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ طاؤس فرماتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے ’’ اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى ‘‘ کے متعلق سوال کیا گیا تو سعید بن جبیر کہنے لگے کہ اس سے مراد ’’ قُرْبٰي آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘ (آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت) ہے، تو ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا : (( عَجِلْتَ، إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ بَطْنٌ مِنْ قُرَيْشٍ إِلاَّ كَانَ لَهُ فِيْهِمْ قَرَابَةٌ فَقَالَ إِلاَّ أَنْ تَصِلُوْا مَا بَيْنِيْ وَ بَيْنَكُمْ مِنَ الْقَرَابَةِ )) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ﴿إلا المودۃ فی القربٰی﴾ : ۴۸۱۸ ] ’’تم نے جلدی کی، قریش کا کوئی خاندان ایسا نہ تھا جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت اور رشتہ داری نہ ہو، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’(میں تم سے اس پر کسی مزدوری کا سوال نہیں کرتا) مگر یہ کہ تم اس رشتہ داری کو ملاؤ جو میرے اور تمھارے درمیان ہے۔‘‘ 3۔ بعض لوگ خصوصاً شیعہ اس آیت کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ آپ کہہ دیں کہ میں تم سے اس پر کسی مزدوری کا سوال نہیں کرتا مگر قرابت والوں سے دوستی کا، یعنی میں تم سے اس پر اس کے سوا کچھ نہیں مانگتا کہ تم میرے قرابت داروں سے دوستی رکھو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مومن قرابت داروں سے دوستی اپنی جگہ مسلمہ ہے، جو دوسرے دلائل سے ثابت ہے، مگر اس آیت کا وہ مطلب ہر گز نہیں جو ان لوگوں نے بیان کیا ہے، کیونکہ ’’ الْقُرْبٰى ‘‘ کا معنی رشتہ داری ہے، رشتہ دار نہیں۔ رشتہ داروں کے لیے ’’ذَوِي الْقُرْبٰي‘‘ کا لفظ آتا ہے۔ اگر ’’ الْقُرْبٰى ‘‘ کا معنی رشتہ دار ہو بھی تو آیت کے الفاظ یہ ہونے چاہییں : ’’ إِلاَّ مَوَدَّةَ الْقُرْبٰي‘‘ ’’مگر رشتہ داروں کی دوستی کا۔‘‘ جب کہ الفاظ ہیں : ﴿ اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى ﴾ ان الفاظ کا وہ معنی ہو ہی نہیں سکتا جو یہ حضرات بیان کرتے ہیں۔ پھر دیکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سوال کن لوگوں سے کر رہے ہیں، ظاہر ہے کفار سے کر رہے ہیں جو آپ کے شدید مخالف تھے، جو آپ سے بھی دوستی کے روا دار نہیں تھے، آیا ممکن بھی ہے کہ آپ ان سے کہیں کہ میرے رشتہ داروں سے دوستی کرو۔ اگر مان بھی لیں کہ آپ ان سے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ دوستی کا سوال کر رہے ہیں تو وہ رشتے دار کون سے ہیں؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پورے قبیلۂ قریش کے ساتھ دوستی کا سوال کر رہے ہیں یا اپنے قریب ترین خاندان بنو عبد المطلب کے ساتھ؟ دونوں میں مخلص مسلمانوں کے علاوہ ابوجہل اور ابو لہب جیسے آپ کے بدترین دشمن بھی موجود تھے، جن کے ساتھ دوستی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور اگر اس سے مراد علی و فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنھم ہیں، جیسا کہ شیعہ حضرات کہتے ہیں تو یہ سورت مکی ہے اور مکہ میں فاطمہ اور علی رضی اللہ عنھما کا نکاح تک نہیں ہوا تھا اور نہ ہی حسن و حسین رضی اللہ عنھما پیدا ہوئے تھے، لہٰذا اس سے یہ لوگ مراد ہو ہی نہیں سکتے۔ 4۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ میں تم سے صرف رشتہ داری کی وجہ سے دوستی کا سوال کرتا ہوں، یہ دین کی تبلیغ کی اجرت یا مزدوری نہیں جو آپ ان سے مانگ رہے ہیں، بلکہ آپ اپنے اس حق کا مطالبہ کر رہے ہیں جو تمام دنیا کے ہاں مسلم ہے، خواہ آپ تبلیغ کریں یا نہ کریں۔ غرض اس آیت میں بھی وہی بات بیان ہوئی ہے جو تمام انبیاء نے اپنی اپنی قوم سے کہی کہ میں تم سے اس تبلیغ دین پر کسی قسم کی مزدوری کا سوال نہیں کرتا، کیونکہ میری مزدوری صرف اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے، جیسا کہ سورۂ شعراء میں ہے : ﴿ وَ مَا اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ﴾ [ الشعراء : ۱۰۹ ] ’’اور میں اس پر تم سے کسی اجرت کا سوال نہیں کرتا، میری اجرت تو رب العالمین ہی کے ذمے ہے۔ ‘‘ قواعدِ نحو میں یہ بات ان الفاظ میں بیان کی جائے گی کہ یہاں استثنا متصل نہیں منقطع ہے، یعنی صلہ رحمی کے سوال کا تبلیغِ دین پر اجرت سے کوئی تعلق نہیں۔ وَ مَنْ يَّقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهٗ فِيْهَا حُسْنًا: ’’ حَسَنَةً ‘‘ میں تنوین تنکیر کے لیے ہے۔ جو شخص کوئی بھلائی کرے گا، خواہ کتنی معمولی ہو، ہم اس کے لیے اس کے حسن و خوبی میں اضافہ کر دیں گے۔ یہ اضافہ کئی طرح سے ہے، ایک تو وہ جتنی نیکی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اس سے زیادہ نیکی کی توفیق دے گا۔ دوسرا جو لوگ اسے دیکھ کر وہ نیکی کریں گے ان سب کے اجر اسے بھی ملیں گے جس سے اس کی نیکی میں اضافہ ہو گا۔ تیسرا اللہ تعالیٰ ہر نیکی کو دس گنا سے سات سو گنا بلکہ شمار سے زیادہ تک بڑھا دیتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ اِنْ تَكُ حَسَنَةً يُّضٰعِفْهَا وَ يُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ اَجْرًا عَظِيْمًا ﴾ [ النساء : ۴۰ ] ’’اگر ایک نیکی ہوگی تو وہ اسے کئی گنا کر دے گا اور اپنے پاس سے بہت بڑا اجر عطا کرے گا۔ ‘‘ چوتھا یہ کہ نیکیوں کے ساتھ گناہ معاف ہوتے ہیں، فرمایا : ﴿ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ﴾ [ ھود : ۱۱۴ ] ’’بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔‘‘ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ: ’’ اِنَّ ‘‘ تعلیل کے لیے آتا ہے، یعنی نیکی کرنے والے کی نیکی میں ہم اضافہ اس لیے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ گناہوں پر بہت پردہ ڈالنے والا اور نیک عمل کی بے حد قدر کرنے والا ہے۔