وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبِّي عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ
تمہارے درمیان جو بھی اختلاف ہے اس کا فیصلہ اللہ ہی کرے گا، وہی ” اللہ“ میرا رب ہے اسی پر میں بھروسہ کرتا اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں
1۔ وَ مَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْهِ مِنْ شَيْءٍ....: یہ آیت اگرچہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے مگر یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کہلوائی گئی ہے، جیسا کہ سورۂ فاتحہ بندوں کی زبانی کہلوائی گئی ہے۔ 2۔ اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ کی جو صفات بیان ہوئی ہیں کہ وہ زمین و آسمان کی ہر چیز کا مالک اور ولی و کارساز ہے، موت و حیات اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے، ان صفات سے خود بخود وہ بات ثابت ہو رہی ہے جو اس آیت میں فرمائی ہے کہ جب مالک وہ ہے تو حاکم بھی وہی ہے اور انسانوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کا فیصلہ بھی اسی کا کام ہے۔ وہ اختلاف عقیدہ میں ہو یا عمل میں، عبادات میں ہو یا معاملات میں، نیکی و بدی قرار دینے میں ہو یا حلال و حرام ٹھہرانے میں، غرض ہر بات میں فیصلہ اسی کا چلے گا۔ کسی اور کو یہ حق دینا کہ وہ شریعت سازی کرے یا حلال و حرام کا فیصلہ کرے درحقیقت اس کی عبادت اور اسے اللہ تعالیٰ کا شریک بنانا ہے، فرمایا : ﴿ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِيَّاهُ ﴾ [ یوسف : ۴۰ ] ’’حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں، اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا اور کسی کی عبادت مت کرو۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ یوسف (۶۷)، انعام (۵۷)، مائدہ (۴۴)، کہف (۲۶) اور سورۂ قصص (۷۰، ۸۸)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر فیصلہ اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعے سے اور اس کے حکم کے تحت کرتے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر تنازع کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول کے سپرد کرنے کو ایمان کی شرط قرار دیا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ [النساء : ۵۹ ] ’’پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ فَلَا وَ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَ يُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا ﴾ [ النساء : ۶۵ ] ’’پس نہیں! تیرے رب کی قسم ہے! وہ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ تجھے اس میں فیصلہ کرنے والا مان لیں جو ان کے درمیان جھگڑا پڑ جائے، پھر اپنے دلوں میں اس سے کوئی تنگی محسوس نہ کریں جو تو فیصلہ کرے اور تسلیم کرلیں، پوری طرح تسلیم کرنا۔ ‘‘ 3۔ یہود و نصاریٰ نے اپنے احبار و رہبان کو حلال و حرام کے فیصلے کا اختیار دیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انھوں نے اپنے احبار و رہبان کو ’’اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ‘‘ بنا لیا۔ دیکھیے سورۂ توبہ (۳۱) کی تفسیر۔ 4۔ یہود و نصاریٰ نے ایک مدت تک حلال و حرام قرار دینے کا اختیار آسمانی شریعت کے بجائے اپنے احبار و رہبان کو دیے رکھا، آخر کار انھوں نے یہ تکلف بھی برطرف کیا اور اپنی آسمانی کتاب یا احبار و رہبان کے بجائے جمہوریت کے نام پر یہ اختیار خود سنبھال لیا کہ عوام کی اکثریت جو فیصلہ کرے وہ حق ہے، ان کے منتخب نمائندے اپنی اکثریت کے ساتھ جسے حلال کہہ دیں وہ حلال اور جسے حرام کہہ دیں وہ حرام ہے۔ آج اگر اکثریت کسی چیز کو حلال کہہ رہی ہے تو وہ حلال ہے، کچھ دن بعد اکثریت اگر حرام کہہ دے تو وہ حرام ہے۔ اب تورات کی ہر قید جو طبیعتوں پر گراں تھی توڑ دی گئی، باہمی رضا سے زنا جائز قرار دیا گیا، رجم کو کالعدم کر دیا گیا، قومِ لوط کا عمل جائز قرار دیا گیا، قتل اور قطع اعضا میں قصاص ختم کر دیا گیا اور سود حلال ٹھہرا۔ غرض جمہوریت کے نام پر ایک نئی شریعت ایجاد کی گئی جس کا رب، رسول اور شریعت سب کچھ انسان قرار پائے، اس طرح بندوں کو مالک کی گدی پر بٹھا دیا گیا۔ 5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : (( لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا ذِرَاعًا، حَتّٰی لَوْ دَخَلُوْا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوْهُمْ، قُلْنَا يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! الْيَهُوْدُ وَالنَّصَارٰی؟ قَالَ فَمَنْ؟ )) [ بخاري، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ’’ لتتبعن سنن من کان قبلکم‘‘: ۷۳۲۰، عن أبي سعید الخدري رضی اللّٰہ عنہ ] ’’تم ہر صورت اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر چل پڑو گے، جیسے بالشت بالشت کے ساتھ اور ہاتھ ہاتھ کے ساتھ برابر ہوتا ہے، حتیٰ کہ اگر وہ گوہ کے بل میں داخل ہوئے تو تم ان کی پیروی کرو گے۔‘‘ ہم نے کہا : ’’یا رسول اللہ! یہود و نصاریٰ کے طریقوں پر؟‘‘ آپ نے فرمایا : ’’تو اور کون؟‘‘ مسلمان خیر القرون میں اور اس کے کچھ عرصہ بعد تک صرف اور صرف قرآن و سنت پر کار بند رہے، یہ اسلام کی ترقی و عروج کا دور ہے، پھر بعض ائمہ کی تقلید شروع ہوئی اور ان کے نام پر ایسی گروہ بندی اور فرقہ سازی ہوئی کہ بعض لوگ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے امام کا قول اللہ اور اس کے رسول کے صریح خلاف ہے، اپنے امام کے قول پر اڑ گئے۔ احبار و رہبان کو ارباب بنانے کا نقشہ اہلِ کتاب کی طرح اہلِ اسلام میں بھی نظر آنے لگا، حتیٰ کہ یہ دین حق کئی مذہبوں میں تقسیم ہو گیا۔ ہر کسی کی مساجد الگ، عدالتیں اور قاضی الگ ہو گئے، امت کی وحدت جو صرف کتاب و سنت کو حاکم ماننے سے حاصل ہوتی تھی پارہ پارہ ہو گئی، مسلمانوں کی توانائیاں کفار کے ساتھ جہاد اور اس کی تیاری کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف صرف ہونے لگیں۔ یہی لوگ حاکم تھے یہی قاضی، اصلاح کی آوازیں اٹھتی رہیں، مگر بے سود۔ چنانچہ کچھ مدت تک تو کتاب و سنت سے انحراف کے باوجود الگ الگ سلطنتوں کی شکل میں مسلمانوں کی حکمرانی کا سلسلہ چلتا رہا، پھر باہمی فساد اور ترکِ جہاد کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو چار ملکوں کے سوا تمام مسلم ممالک نصرانی یا کمیونسٹ کفار کے قبضے میں چلے گئے، جنھوں نے جبراً ان ممالک میں اپنے کفریہ احکام نافذ کر دیے، پھر نہ کتاب و سنت کے احکام باقی رہے نہ ائمہ کے مذاہب۔ ہر جگہ کفار کا حکم چلنے لگا اور بنی اسرائیل کی طرح مسلمانوں پر بھی اللہ کے عذاب کا کوڑا کفار کی غلامی کی صورت میں برسنے لگا۔ مسلمان آزادی حاصل کرنے کے لیے مسلسل جد و جہد اور دعائیں کرتے رہے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور ان کی آزادی کے لیے جد و جہد اور کفار کی باہمی جنگ عظیم کے نتیجے میں بہت سے مسلم ممالک کو آزادی ملی۔ اس کے بعد جہاد کے نتیجے میں بہت سے ممالک کمیونسٹوں کے تسلط سے بھی آزاد ہوئے، مگر تمام ممالک میں برسر اقتدار طبقے نے کفر کا وہی نظامِ حکومت برقرار رکھا جو کفار کے زمانے میں تھا، جس میں فیصلہ اللہ اوراس کے رسول کے احکام کے مطابق نہیں بلکہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق ہوتا ہے۔ اس طرح مسلمانوں کے اہلِ کتاب کے نقش قدم پر چلنے کی پیش گوئی پوری ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ کا دین صرف نماز روزے وغیرہ کے لیے باقی رہ گیا، گھروں، بازاروں، عدالتوں اور حکومت کے ایوانوں سے اللہ تعالیٰ کے حکم کو جلاوطن کرکے اس کی جگہ جمہوریت کے بت کی پرستش شروع کر دی گئی۔ البتہ بعض ملکوں میں یہ تکلف کیا گیا کہ اس کا نام اسلامی جمہوریت رکھ دیا گیا، حالانکہ اسلام میں حکم اللہ کا ہوتا ہے اور جمہوریت میں بندوں کا، دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے شراب کو اسلامی شراب اور سود کو اسلامی سود کہہ کر حلال کر لیا جائے، جیسا کہ یہ ظلم بھی اس سے پہلے مسلمان اپنی جانوں پر کر چکے ہیں۔ ان کے بہت سے برسراقتدار طبقوں نے ان علماء کے اقوال کو اپنی مملکتوں میں نافذ کیا جنھوں نے صرف انگور اور کھجور کی شراب کو حرام قرار دے کر دوسرے تمام نشہ آور مشروبات پینے پر حد ختم کر دی، خواہ ان سے نشہ بھی آ جائے۔ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی عظیم سلطنتیں شراب کے سمندر میں غرق ہو گئیں کہ حکمران بھی پیتے تھے اور رعایا بھی اور جائز سمجھ کر پیتے تھے۔ اسی طرح سود کی بہت سی قسموں کو جائز قرار دے کر اسلامی سود رائج ہونے کے نتیجے میں طمع و ہوس کے طوفان نے ہمدردی و ایثار کا سلسلہ ختم کر دیا اور حرام ہوسِ زرّ نے مسلمانوں کو آخرت سے غافل کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بھی دنیا اور آخرت دونوں میں مسلمانوں کی نجات اسی میں ہے کہ وہ دوبارہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کی طرف واپس پلٹیں اور اپنی پوری زندگی میں اس کی اطاعت اختیار کریں۔ ان شاء اللہ وہ وقت آنے والا ہے جب دوبارہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہو گی، جس میں اللہ کی زمین پر صرف اللہ کا حکم چلے گا۔ یہ رسول صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی ہے اور ہر صورت پوری ہو گی۔ ہمارا کام جد و جہد ہے، اللہ چاہے گا تو ہم اپنی آنکھوں سے وہ مبارک دن دیکھیں گے، ورنہ ہمارے بعد آنے والے اسے ضرور دیکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے ان بندوں میں شامل فرمائے جو قیامت تک دین حق قائم رکھنے کے لیے لڑتے رہیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَنْ يَّبْرَحَ هٰذَا الدِّيْنُ قَائِمًا يُقَاتِلُ عَلَيْهِ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَةُ )) [ مسلم، الإمارۃ، باب قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ’’لا تزال طائفۃ من أمتي ظاھرین علی الحق....‘‘ : ۱۹۲۲، عن جابر بن سمرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا، مسلمانوں کی ایک جماعت اس پر لڑتی رہے گی، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو۔‘‘ 6۔ فَحُكْمُهٗ اِلَى اللّٰهِ: ہر جھگڑے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہونے میں شرعی احکام کا فیصلہ بھی شامل ہے، جیسا کہ اوپر گزرا اور یہ بھی کہ دنیا میں لوگوں کے درمیان جتنے جھگڑے ہیں ان کا واضح فیصلہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہی فرمائے گا۔ دنیا میں کفار اپنے آپ کو حق پر کہتے رہیں، مگر وہاں انبیاء اور ان کے متبعین کا حق پر ہونا اور کفار کا باطل پر ہونا سب کے سامنے واضح ہو کر آ جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ اَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيْ مَا كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ﴾ [ الزمر : ۴۶ ]’’تو کہہ اے اللہ! آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے! ہر چھپی اور کھلی کو جاننے والے! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔‘‘ 7۔ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبِّيْ: یعنی وہی اللہ جس کی چند صفات اوپر کی آیات میں بیان ہوئیں، جنھیں تم بھی مانتے ہو، جو مختصراً یہ ہیں کہ وہ عزیز و حکیم ہے، علیّ و عظیم ہے، غفور و رحیم ہے، حقیقی ولی ہے، مردوں کو زندہ کرنے والا اور ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے، تمام اختلافات کا فیصلہ کرنے والا ہے، وہی اللہ میرا رب ہے، ان میں سے ایک بھی صفت جب کسی اور میں پائی ہی نہیں جاتی تو میں کسی اور کو اپنا رب کیسے مان لوں؟ 8۔ ’’ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ‘‘ (اسی پر میں نے بھروسا کیا) فعل ماضی ہے اور ’’ وَ اِلَيْهِ اُنِيْبُ ‘‘ (اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں) فعل مضارع ہے، جس میں استمرار اور ہمیشگی پائی جاتی ہے۔ ’’ عَلَيْهِ ‘‘ اور ’’ اِلَيْهِ ‘‘ پہلے آنے سے قصر کا معنی پیدا ہوا، اس لیے ترجمہ ’’اسی پر‘‘ اور ’’اسی کی طرف‘‘ کیا گیا ہے۔ یعنی میں شروع سے اسی پر بھروسا کر چکا اور اب ہر بات میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں، ہر مسئلے کا حکم اسی سے لیتا ہوں، ہر جھگڑے کا فیصلہ اسی سے کرواتا ہوں اور ہر گناہ پر اسی سے معافی مانگتا ہوں اور اسی کو حق سمجھتا ہوں۔