وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ ۗ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ
اے نبی تجھ سے پہلے ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں۔ جن میں سے بعض کے حالات ہم نے آپ کو بتائے ہیں اور بعض کے نہیں بتائے۔ کسی رسول کے پاس یہ طاقت نہ تھی کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی نشانی لے آئے۔ جب اللہ کا حکم آیا تو حق کے مطابق فیصلہ کردیا گیا اور اس وقت باطل پرست خسارے میں پڑ گئے
1۔ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ: کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشان کرنے اور نیچا دکھانے کے لیے اوراللہ کی آیات کا مقابلہ کرنے اور ان کے بارے میں کج بحثی کے لیے جو ناجائز مطالبے کیے ان میں سے ایک مطالبہ ان کی طلب اور تقاضے کے مطابق عجیب و غریب نشانیاں اور معجزے دکھانا تھا، جیسا کہ سورۂ بنی اسرائیل (۹۰ تا ۹۳) میں گزرا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے بطور اسوہ و نمونہ پہلے رسولوں کا ذکر فرمایا کہ آپ ان کے ایسے مطالبوں سے پریشان یا غم زدہ نہ ہوں، آپ سے پہلے بہت سے رسول گزرے، مگر معجزہ دکھانا ان میں سے بھی کسی کے اختیار میں نہ تھا۔ سو اگر آپ انھیں ان کی طلب کے مطابق معجزہ نہ دکھا سکیں تو اس سے آپ کی رسالت کے سچا ہونے میں کوئی خلل نہیں آتا، جیسا کہ پہلے رسولوں کی رسالت میں کوئی خلل نہیں آیا۔ 2۔ مِنْهُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ: ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جن انبیاء کا بیان نہیں ہوا وہ تعداد میں ان پیغمبروں سے بہت ہی زیادہ ہیں جن کا قرآن میں ذکر ہوا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ نساء (۱۶۴) کی تفسیر۔ 3۔ ہمارے استاذ محمد عبدہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’کسی قوم کے قدیم رہنما کے متعلق (جو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہو گزرے ہیں ) قطعی طور پر یہ کہنا صحیح نہیں کہ وہ نبی نہ تھا، ممکن ہے کہ وہ نبی ہو اور اس نے توحید ہی کی دعوت پیش کی ہو، مگر بعد کے لوگوں نے اس کی تعلیمات کو مسخ کر دیا ہو۔‘‘ (اشرف الحواشی) ایسی کسی شخصیت کو یقین سے نبی بھی نہیں کہا جا سکتا۔ 4۔ وَ مَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ يَّاْتِيَ بِاٰيَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ: مطلب یہ ہے کہ معجزہ کوئی کھیل نہیں کہ کافروں نے جب چاہا نبی سے اس کا مطالبہ کر دیا اور نبی نے جب چاہا اسے دکھا دیا، کسی رسول کے پاس اللہ کے اذن کے بغیر کوئی معجزہ بھی لانے کا اختیار نہیں۔ اس میں ان لوگوں کا واضح رد ہے جو انبیاء تو ایک طرف اولیاء کے متعلق بھی یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ وہ کمان سے نکلے ہوئے تیر کو بھی واپس لانے کی قدرت رکھتے ہیں اورجو چاہیں کر سکتے ہیں۔ 5۔ فَاِذَا جَآءَ اَمْرُ اللّٰهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ: یعنی مطالبے پر جو معجزہ پیش کیا جاتا ہے اس کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے دو ٹوک فیصلے کی ہوتی ہے، اگر کوئی قوم اس کے بعد بھی ایمان نہ لائے تو اس کی ہلاکت یقینی ہوتی ہے۔ 6۔ وَ خَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُوْنَ: ’’ هُنَالِكَ ‘‘ زمان و مکان دونوں کے لیے آتا ہے، ’’اس جگہ‘‘، ’’اس وقت‘‘ اور ’’اس موقع پر‘‘ کے الفاظ میں دونوں معانی آ جاتے ہیں۔ یعنی عذاب کی آمد کے موقع پر ایمان والے نجات پا جاتے ہیں اور باطل والے خسارے میں رہ جاتے ہیں اور ان کا نام و نشان مٹا دیا جاتا ہے۔