يَوْمَ لَا يَنفَعُ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ ۖ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ
اس دن ظالموں کو ان کی معذرت کچھ فائدہ نہ دے گی۔ ان پر لعنت پڑے گی اور ان کا بدترین ٹھکانہ ہو گا
1۔ يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظّٰلِمِيْنَ مَعْذِرَتُهُمْ: ’’ الظّٰلِمِيْنَ ‘‘ سے مراد مشرک ہیں۔ (دیکھیے انعام : ۸۲) انھیں ان کی معذرت اس لیے فائدہ نہیں دے گی کہ ان کے پاس کوئی صحیح عذر ہو گا ہی نہیں۔ رسولوں کے پیغام پہنچانے کی وجہ سے لا علمی کا عذر وہ کر نہیں سکیں گے۔ اس دن ان کے پاس عذر یا تو صریح جھوٹ ہو گا کہ وہ کہیں گے : ﴿ وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ ﴾ [الأنعام : ۲۳ ] ’’اللہ کی قسم جو ہمارا رب ہے! ہم مشرک نہیں تھے۔‘‘ یا تقدیر کا عذر کرکے اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کریں گے، جیسا کہ سورۂ مومنون میں ان کا قول ہے : ﴿ رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا ﴾ [ المؤمنون : ۱۰۶ ] ’’اے ہمارے رب! ہم پر ہماری بدبختی غالب آ گئی۔‘‘ ظاہر ہے ان میں سے کوئی عذر اس قابل ہی نہیں کہ سنا جائے، فائدہ پہنچانا تو بہت دور کی بات ہے۔ 2۔ وَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ: ’’ لَهُمْ ‘‘ کو پہلے لانے سے حصر کا مفہوم پیدا ہو رہا ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے : ’’اور انھی کے لیے لعنت ہے اور انھی کے لیے بدترین گھر ہے۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا نتیجہ ہے کہ اللہ کے رسول اور ایمان والے اس دن لعنت اور بدترین گھر دونوں سے محفوظ رہیں گے۔