سورة آل عمران - آیت 119

هَا أَنتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۚ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

ہاں تم ان سے محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت نہیں رکھتے حالانکہ تم پوری کتاب کو مانتے ہو اور جب وہ تم سے ملتے ہیں تو اپنے ایمان دار ہونے کا دعو ٰی کرتے ہیں لیکن تنہائی میں غصے سے تمہارے خلاف انگلیاں چباتے ہیں۔ کہہ دو کہ تم اپنے غصہ میں ہی مرجاؤ اللہ تعالیٰ دلوں کے رازوں کو اچھی طرح جانتا ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

الْاَنَامِلَ“ یہ ’’اَنْمِلَةٌ‘‘ کی جمع ہے، جس کا معنی ہے انگلیوں کے پورے۔ ’’عَضَّ يَعَضُّ (س) ‘‘ کا معنی ہے دانتوں سے کانٹا۔ ’’الکتاب‘‘ سے مراد تمام آسمانی کتابیں ہیں، یعنی تم تو سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہو اور وہ کسی کتاب پر بھی ایمان نہیں رکھتے، پھر بھی بجائے اس کے کہ تم ان سے نفرت کرو، الٹا ان سے دوستی کرتے ہو اور وہ بجائے دوستی کے تم سے دشمنی رکھتے ہیں اور دشمنی بھی اتنی سخت کہ اکیلے ہوتے ہیں تو غصے کی وجہ سے دانتوں سے انگلیوں کے پورے کاٹتے ہیں، مگر جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔ منافقین کی مسلم دشمنی کو واضح فرمایا ہے۔