سورة فاطر - آیت 44

أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَكَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعْجِزَهُ مِن شَيْءٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

کیا یہ لوگ زمین میں کبھی چلے پھرے نہیں ؟ کہ انہیں ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں، اور وہ ان سے بہت زیادہ طاقت ور تھے، اللہ کو آسمانوں میں اور زمین میں کوئی چیز عاجز کرنے والی نہیں ہے وہ سب کچھ جانتا ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَوَ لَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ ....: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ روم کی آیت (۹) کی تفسیر۔ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعْجِزَهٗ مِنْ شَيْءٍ ....: یعنی آسمان و زمین یعنی ساری کائنات میں کوئی چیز اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتی کہ وہ اسے پکڑ نہ سکے، یا پکڑنے کے بعد وہ اس کی گرفت سے نکل کر بھاگ جائے۔ اِنَّهٗ كَانَ عَلِيْمًا قَدِيْرًا : کیونکہ وہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا ہے اور ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے، یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی چیز اسے عاجز کر دے، وہ اسے اس لیے نہ پکڑ سکے کہ اسے پتا ہی نہ چلے کہ وہ کہاں ہے، یا اسے معلوم تو ہو مگر وہ اسے پکڑنے کی طاقت نہ رکھے۔ ہمیشہ کا معنی ’’ كَانَ ‘‘ کا لفظ ادا کر رہا ہے۔