وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ كَذَٰلِكَ ۗ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ
اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں بے شک اللہ زبردست درگزر کرنے والا ہے
1۔ وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ كَذٰلِكَ: یعنی صرف نباتات اور جمادات ہی میں نہیں بلکہ دوسری تمام مخلوقات میں رنگا رنگی کا یہی عالم ہے۔ انسان، جانور اور چوپائے سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ان میں ہر جنس کی مختلف قسمیں ہیں اور ہر قسم کا ہر فرد دوسرے سے مختلف ہے۔ 2۔ اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا : یہاں علم سے مراد دنیوی علوم نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی صفات کا علم ہے، جس کو اللہ کی عظمت و صفات کا جتنا علم ہو گا اتنا ہی وہ اس کی نافرمانی سے ڈرے گا۔ علاوہ ازیں آیت میں ’’علماء‘‘ سے مراد وہ اصطلاحی علماء بھی نہیں جو قرآن و حدیث اور فقہ کا علم رکھنے کی بنا پر علمائے دین کہے جاتے ہیں۔ وہ اس آیت کے مصداق اسی صورت میں ہوں گے جب ان کے اندر اللہ کا ڈر بھی ہو گا۔ اسی طرح وہ مسلمان سائنس دان بھی اس کے مصداق ہیں جن کے دل میں کائنات کے عجائب سامنے آنے پر اللہ کی عظمت کے یقین اور اس سے ہیبت و خشیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ طبری نے معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل فرمایا ہے کہ علماء وہ ہیں جو جانتے ہیں : ﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ﴾ ’’یقیناً اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘ 3۔ تفسیر قاسمی میں ہے : ’’اس سے پہلے فرمایا تھا : ﴿ اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ ﴾ [ فاطر : ۱۸ ] ’’تو صرف ان لوگوں کو ڈراتا ہے جو دیکھے بغیر اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔‘‘ یہ جملہ اسی کی تکمیل ہے، لوگوں کے مختلف طبقات اور مراتب بیان کرنے کے بعد بتایا کہ رب تعالیٰ کو دیکھے بغیر اس سے کون ڈرتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کو دیکھے بغیر اس سے وہی ڈرتے ہیں جو اس کا اور اس کی صفاتِ جلیلہ و افعالِ جمیلہ کا علم رکھتے ہیں، کیونکہ بندہ اسی سے ڈرتا ہے جس کا اسے علم ہو اور جس کی قوت و عظمت اور صفات کمال کو وہ جانتا ہو۔ پھر جسے اس کا جتنا زیادہ علم ہو گا اتنا ہی وہ اس سے ڈرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَاللّٰهِ! لَأَنَا أَعْلَمُكُمْ بِاللّٰهِ وَ أَخْشَاكُمْ لَهُ )) [ منتخب مسند عبد بن حمید، ح : ۱۵۰۲ ] ’’اللہ کی قسم! میں تم سب سے زیادہ اللہ کا علم رکھنے والا اور تم سب سے زیادہ اس سے ڈرنے والا ہوں۔‘‘ صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں : (( إِنَّ أَتْقَاكُمْ وَ أَعْلَمَكُمْ بِاللّٰهِ أَنَا )) [ بخاري، الإیمان، باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنا أعلمکم باللّٰہ : ۲۰ ] ’’بے شک تم سب سے زیادہ ڈرنے والا اور اللہ کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا میں ہوں۔‘‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت پر دلالت کرنے والے کاموں کے ذکر کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے صرف علم والے ڈرتے ہیں۔ کافر چونکہ اللہ تعالیٰ کی اس پہچان سے بالکل بے خبر ہیں، اس لیے انھیں ڈرانا بالکل بے سود ہے۔‘‘ (افادہ از ابو السعود) قاسمی ہی نے قاشانی سے نقل فرمایا ہے : ’’یعنی اللہ تعالیٰ سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو اس کے عالم و عارف ہیں (اسے جاننے پہچاننے والے ہیں)، کیونکہ یہاں خشیّت اور ڈرنے سے مراد عذاب کا ڈر نہیں ہے، بلکہ خشیّت دل میں خشوع و انکسار کی اس حالت کا نام ہے جو اس کی عظمت کے تصور اور اسے دل میں حاضر کرنے سے پیدا ہوتی ہے، کیونکہ جو اس کی عظمت کا تصور نہ کرے، ممکن نہیں اس سے ڈرے اور اللہ تعالیٰ اپنی عظمت کے ساتھ جس شخص کے دل کی آنکھوں کے سامنے حاضر ہو وہ اس سے اس طرح ڈرے گا جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور اللہ تعالیٰ کا کامل علم و معرفت رکھنے والے کے درمیان اور اس کا ناقص علم و معرفت رکھنے والے کے درمیان اس کی حاضری کے تصور میں بہت زیادہ فرق ہے اور دونوں کے درمیان علم و معرفت کی کمی بیشی کے لحاظ سے اتنے مرتبے ہیں جن کا شمار نہیں ہو سکتا۔‘‘ 4۔ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ : یعنی اللہ تعالیٰ سب پر غالب ہے، چاہے تو نافرمان اور سرکش لوگوں کو فوراً پکڑے، مگر وہ بے حد بخشنے والا ہے، اس لیے انھیں مہلت دیے جاتا ہے، تاکہ وہ کسی وقت بھی پلٹ آئیں۔