وَيَرَى الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ الَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ هُوَ الْحَقَّ وَيَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ
اے نبی صاحب علم جانتے ہیں کہ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے وہ بالکل حق ہے اور قرآن غالب اور تعریف والے رب کا راستہ دکھاتا ہے
1۔ وَ يَرَى الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ....: ’’ يَرَى ‘‘ میں رُؤیت (دیکھنے) سے مراد یہاں دل کے ساتھ دیکھنا یعنی جاننا ہے۔’’ يَرَى الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ‘‘ کا پہلا مفعول ’’ الَّذِيْ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ‘‘ ہے اور دوسرا مفعول ’’ الْحَقَّ ‘‘ ہے۔ ’’ هُوَ ‘‘ ضمیر فصل ہے۔ خبر ’’ الْحَقَّ ‘‘ پر الف لام کی وجہ سے اور ضمیر فصل کی وجہ سے کلام میں حصر اور تاکید پیدا ہو گئی، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے کہ ’’وہی حق ہے۔‘‘ ’’ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ‘‘ سے مراد سب سے پہلے صحابہ کرام ہیں، پھر تمام مسلمان جو فکرو دانش اور علم نافع سے بہرہ مند ہوئے، یا اہلِ کتاب میں سے جو لوگ ایمان لائے، جیسے عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ۔ اس آیت اور اس سے اگلی آیت میں رسول، وحی الٰہی اور قیامت کے متعلق اہل علم و دانش کا یقین و ایمان اور کفار کا عقیدہ و اعلان بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ فرمایا، جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے وہ تو جانتے اور یقین رکھتے ہیں کہ جو کچھ آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے وہی حق ہے اور وہ اس ذات پاک کا راستہ دکھاتا ہے جو سب پرغالب اور تمام خوبیوں کا مالک ہے۔ کفار اور شیطان لاکھ کوشش کر لیں، وہ اس کے سب پر غالب ہونے اور تمام خوبیوں کا مالک ہونے کے یقین کی وجہ سے اس کے راستے کے سوا کسی اور راستے پر چلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے وہ اس کے بتانے کے مطابق قیامت قائم ہونے پر یقین رکھتے ہیں اور اس کی تیاری کرتے ہیں۔ 2۔ بعض مفسرین نے ’’ وَ يَرَى الَّذِيْنَ ‘‘ کا عطف ’’ لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ‘‘ پر بیان کیا ہے، مگر بہتر یہی ہے کہ اسے نیا کلام قرار دیا جائے۔