يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اے نبی ہم نے آپ کے لیے آپ کی بیویاں حلال کردیں جن کے مہر آپ نے ادا کیے ہیں، اور لونڈیوں میں سے جو آپ کی ملکیت میں آچکی ہیں اور تمہاری چچا زاد اور پھوپھی زاد اور ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے، اور وہ مومن عورت جس نے اپنے آپ کو نبی کے لیے ہبہ کردیا ہوا۔ اگر نبی اسے نکاح میں لینا چاہے یہ رعایت خالصتاً آپ کے لیے ہے، دوسرے مومنوں کے لیے نہیں، ہم کو معلوم ہے کہ عام مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں ہم نے کیا حدودمقرر کی ہیں، آپ کو مستثنیٰ کیا تاکہ آپ کو تنگی نہ ہو اور اللہ غفورورحیم ہے
1۔ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّا اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ ....: اس آیت میں ان لوگوں کے اعتراض کا جواب ہے جو کہتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے لوگوں کے لیے چار سے زیادہ بیویاں ممنوع قرار دیتے ہیں تو خود انھوں نے چار سے زیادہ شادیاں کیسے کر لیں؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ اے نبی! ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ تمام بیویاں حلال کی ہیں جن کا آپ نے مہر دیا ہے۔ مراد وہ بیویاں ہیں جو آیت کے نزول کے وقت آپ کے نکاح میں تھیں۔ مطلب یہ کہ عام مسلمانوں کے لیے چار کی قید لگانے والے ہم ہیں اور آپ کے لیے اس شرط کو ختم کرنے والے بھی ہم ہیں۔ جن عورتوں سے آپ نے نکاح فرمایا ان کی تعداد گیارہ تھی، جن میں سے نو بیویاں آپ کی وفات کے وقت زندہ تھیں۔ دو بیویاں خدیجہ اور زینب بنت خزیمہ ام المساکین رضی اللہ عنھما وفات پا چکی تھیں۔ ان کے علاوہ چند عورتوں کے متعلق اختلاف ہے کہ آپ کا ان سے عقد نکاح ہوا یا نہیں، مگر اس پر اتفاق ہے کہ وہ رخصت ہوکر آپ کے گھر نہیں آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت یہ نو امہات المومنین حیات تھیں : (1) عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنھما (2) سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنھا (3) حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنھما (4) ام سلمہ بنت ابی امیہ رضی اللہ عنھا (5) زینب بنت جحش رضی اللہ عنھا (6) جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنھا (7) ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنھما (8) صفیہ بنت حُیی رضی اللہ عنھا (9) اور میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنھا ۔ 2۔ ابن کثیر لکھتے ہیں : ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ تھا، جو پانچ سو درہم ہوتے ہیں۔ ہاں ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنھما کا مہر نجاشی رحمہ اللہ نے اپنے پاس سے چار سو دینار دیا تھا۔ صفیہ رضی اللہ عنھا کا مہر انھیں آزاد کرنا تھا، وہ خیبر کے قیدیوں میں سے تھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں آزاد کر دیا اور اسی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا اور نکاح کر لیا۔ جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنھا بنو المصطلق سے گرفتار ہو کر آئی تھیں، انھوں نے ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ سے جتنی رقم پر مکاتبت کی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اتنی رقم ادا کر کے ان سے عقد کر لیا تھا۔‘‘ (ابن کثیر) 3۔ وَ مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ مِمَّا اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَيْكَ: ’’أَفَاءَ يُفِيْءُ‘‘ کا معنی ’’لوٹا کر لانا‘‘ ہے۔ ’’فے‘‘ عموماً ان اموال کو کہا جاتا ہے جو جنگ کے بغیر دشمن سے حاصل ہوں۔ بعض اوقات جنگ کے ساتھ ملنے والی غنیمت کو بھی ’’فے‘‘ کہہ لیتے ہیں۔ ان اموال کو ’’فے‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ دنیا کے تمام اموال حقیقت میں مسلمان کی ملکیت ہیں جو عارضی طور پر کفار کے قبضے میں ہیں، جب مسلمان انھیں حاصل کرتے ہیں تو وہ اپنا ہی مال واپس لیتے ہیں۔ ان عورتوں کے آپ کے لیے حلال کرنے کے ذکر کے بعد جن کے ساتھ آپ نے مہر دے کر نکاح کیا تھا، تین قسم کی عورتیں حلال کرنے کا ذکر فرمایا۔ ان میں سے پہلی قسم لونڈیاں ہیں، جو بطور فے آپ کو حاصل ہوئیں اور آپ نے لونڈی کی حیثیت سے ان سے فائدہ اٹھایا۔ یہ ماریہ قبطیہ تھیں، جنھیں مقوقس مصر نے آپ کے لیے بطور ہدیہ بھیجا تھا۔ اس لیے وہ فے کے حکم میں تھیں، ان سے آپ کے بیٹے ابراہیم پیدا ہوئے۔ ’’ مِمَّا اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَيْكَ ‘‘ کا یہ معنی نہیں کہ جو لونڈیاں بطور فے آپ کے پاس نہ آئیں وہ آپ کے لیے حلال نہیں، بلکہ ’’سراری‘‘ (لونڈیوں) کی تو آپ کے لیے اور آپ کی امت کے لیے عام اجازت ہے۔ (قرطبی) 4۔ وَ بَنٰتِ عَمِّكَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِكَ ....: پہلی بیویوں کے بعد آپ کے لیے حلال کی جانے والی عورتوں کی یہ دوسری قسم ہے، یعنی وہ عورتیں جو باپ یا ماں کی طرف سے آپ کی قریبی رشتہ دار ہیں اور انھوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی ہے۔ ان کے ساتھ نکاح آپ کے لیے حلال ہے۔ یہ تفسیر اس لیے کی گئی ہے کہ آپ کے ماموں یا خالہ کی کوئی بیٹی تھی ہی نہیں۔ آپ کی والدہ کے خاندان بنو زہرہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں کہا جاتا تھا۔ 5۔ وَ امْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ ....: یہ تیسری قسم ہے، یعنی مندرجہ بالا عورتوں کے علاوہ کوئی مومن عورت اگر اپنا آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دے، یعنی مہر کے بغیر نکاح میں دینے کی پیش کش کرے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے نکاح کرنا چاہیں تو آپ کے لیے ولی اور مہر کے بغیر اس سے نکاح حلال ہے۔ ثابت بنانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے انس رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، وہ اپنے آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیش کر رہی تھی، تو انس رضی اللہ عنہ کی بیٹی نے کہا : ’’اس کی حیا کتنی کم تھی؟‘‘ تو انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’وہ تجھ سے بہتر تھی، اس نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیش کیا تھا۔‘‘ [ بخاري، الأدب، باب ما لا یستحیا من الحق للتفقہ في الدین : ۶۱۲۳ ] 6۔ خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ : یعنی یہ اجازت صرف آپ کے ساتھ خاص ہے، دوسرے مسلمانوں کے لیے وہی حکم ہے جو سورۂ نساء (۲۴) میں فرمایا : ﴿اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ ﴾ یعنی بن مہر نکاح جائز نہیں۔ (موضح) اسی طرح چار سے زیادہ بیویوں کی اجازت صرف آپ کے لیے ہے، دوسرے مسلمانوں کے لیے نہیں۔ 7۔ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِيْ اَزْوَاجِهِمْ وَ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ : یعنی عام مسلمانوں کو نکاح کے لیے جن شرائط کا پابند کیا گیا ہے، ان کاپابند رہنا ان کے لیے ضروری ہے اور وہ یہ کہ مہر، ولی اور گواہوں کے بغیر نکاح کرنا جائز نہیں، اس کے علاوہ وہ ایک وقت میں چار سے زیادہ عورتیں نکاح میں نہیں رکھ سکتے۔ یہ مسائل سورۂ نساء (۳، ۴ اور ۲۴، ۲۵) میں گزر چکے ہیں۔ 8۔ لِكَيْلَا يَكُوْنَ عَلَيْكَ حَرَجٌ : یعنی دعوت دین کی مصلحت کے لیے آپ کو ایک وقت میں چار سے زیادہ عورتوں کے ساتھ نکاح کی اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ آپ پر زیادہ نکاح کرنے میں کوئی تنگی نہ رہے۔ کیونکہ بہت سی مصلحتوں کی وجہ سے آپ کو زیادہ نکاح کرنے ہوں گے۔ اہلِ علم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے ہر ایک کے ساتھ نکاح میں جو مصلحتیں مدنظر تھیں ان کا تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا ہے اور اسلام کے مخالفین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعددِ ازواج پر جو جو اعتراض کرتے ہیں ان کا مدلل جواب دیا ہے۔ اس مقصد کے لیے مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی تصنیف ’’مقدس رسول‘‘ لاجواب کتاب ہے۔ الرحیق المختوم میں بھی یہ مصلحتیں اختصار کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ 9۔ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا : یعنی ہم نے رفع حرج کے لیے آپ کو جو اجازتیں عطا فرمائی ہیں ان کا باعث ہماری مغفرت و رحمت کی صفت ہے۔ (ابن عاشور)