يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ
وہ آسمان سے زمین تک سب معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کا نتیجہ اس کے حضور پیش کیا جاتا ہے ایسے دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال ہے
1۔ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَى الْاَرْضِ ....: اس آیت کی تفسیر میں اہلِ علم کا بہت اختلاف ہے، حتیٰ کہ بعض نے اس کی تفصیل اللہ کے علم کے سپرد کرتے ہوئے خاموشی اختیار فرمائی ہے، کیونکہ ہر تفسیر میں ایک طرح کی کمی اور اعتراض کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ یہاں ان میں سے دو تفسیریں نقل کی جاتی ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ جو فیصلہ فرماتا ہے اسے آسمان سے زمین کی طرف نافذ فرماتا ہے، پھر اس کے نافذ ہونے کی خبر اوپر اس کی طرف ایک ایسے دن میں جاتی ہے جس کی مقدار آسمان سے زمین پر اترنے اور پھر اس کی طرف چڑھنے میں دنیا کے ہزار سال کے برابر ہے، کیونکہ آسمان و زمین کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، چنانچہ اترنے اور اوپر جانے کا فاصلہ ہزار سال ہے۔ ابن جریر طبری نے فرمایا : ’’یہ سب اقوال سے بہتر ہے، کیونکہ یہ اس کے معانی میں سب سے ظاہر اور قرآن کے ظاہر الفاظ سے زیادہ ملتا ہے۔‘‘ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کے ساتھ مجاہد، قتادہ اور ضحاک کا قول نقل فرمایا ہے : ’’(اللہ تعالیٰ کا حکم لے کر) فرشتے کا اترنا پانچ سو سال کے فاصلے میں ہوتا ہے اور اس کا چڑھنا بھی پانچ سو سال کے فاصلے میں ہوتا ہے، لیکن وہ اسے آنکھ جھپکنے میں طے کر لیتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ اَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ﴾ [ السجدۃ : ۵ ] ’’ایک ایسے دن میں جس کی مقدار ہزار سال ہے، اس (حساب) سے جو تم شمار کرتے ہو۔‘‘ (ابن کثیر) قاسمی، ابن جزی صاحب التسہیل، بغوی ، سعدی اور بہت سے مفسرین نے یہی معنی بیان فرمایا ہے، یا اس کو ترجیح دی ہے۔ واضح رہے کہ قرآن مجید میں ’’ يَوْمٍ ‘‘ کا لفظ پچاس ہزار سال کی مدت کے لیے بھی آیا ہے اور ہزار سال کے لیے بھی، دنیا کے عام دنوں کے لیے بھی اور وقت کے چھوٹے سے چھوٹے جز کے لیے بھی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ يَسْـَٔلُهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ ﴾ [ الرحمٰن : ۲۹ ] ’’اس سے مانگتا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے، ہر دن وہ ایک نئی شان میں ہے۔‘‘ یہاں ’’ہر دن‘‘ سے مراد ہر لمحہ ہے۔ مقصد اس آیت کا یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ ان سے لاتعلق نہیں ہو گیا کہ اس کے چلانے کا کام کوئی اور کر رہا ہو، بلکہ آسمان سے لے کر زمین تک، بڑے سے لے کر چھوٹے تک، ہر کام کی تدبیر وہ خود کرتا ہے۔ وہ اپنے ہر حکم پر عمل کی بھی مکمل خبر رکھتا ہے اور زمین و آسمان کے درمیان ہزار برس کے فاصلے کے باوجود اس کے حکم سے یہ سب کچھ لمحوں میں ہو جاتا ہے۔ اس آیت میں ان جاہل صوفیوں اور مشرکین کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عالم کا نظام اپنے پیاروں کو دے کر فارغ ہو چکا ہے اور اب سارا نظام وہی چلا رہے ہیں۔ پھر ان حضرات نے اس کے لیے باقاعدہ عہدے بنا رکھے ہیں، جن کے مطابق ان کا کوئی ولی قیّوم کے مرتبے پر ہے، کوئی قطب ہے، کوئی غوث ہے، کچھ ابدال ہیں اور کچھ اوتاد، اور یہی حضرات دنیا کا نظام چلا رہے ہیں۔ اس کے مطابق انھوں نے شیخ عبدالقادر جیلانی کو غوثِ اعظم (سب سے بڑا مددگار) کا عہدہ دے رکھا ہے۔ ایک اللہ کو پکارنے کے بجائے یہ لوگ کبھی کسی کو مدد کے لیے پکارتے ہیں اور کبھی کسی کو۔ دراصل ان کی گمراہی کے پیچھے وہی فاسد عقیدہ ہے جس کی تردید اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمائی ہے کہ جو مالک لمحوں میں ہزار سال کے فاصلے سے ہر معاملے کی تدبیر کرتا اور اس کی پوری خبر رکھتا ہے، اس اکیلے کی عبادت اور اسی سے مانگنے کے بجائے کسی ایسے کی عبادت اور اس سے فریاد کیوں کی جائے جس کا کسی کام کی تدبیر میں کوئی دخل ہی نہیں۔ 2۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کو پیدا کرنے کے وقت سے لے کر آسمان سے اپنی مخلوق اور زمین کے ہر معاملے کی تدبیر کر رہا ہے اور یہ سلسلہ ان کے فنا ہونے تک جاری رہے گا۔ پھر یہ تمام معاملات اس کی طرف اوپر جاتے ہیں، تاکہ وہ ان کے بارے میں ایک ایسے دن کے اندر فیصلہ فرمائے جس کی مقدار ہزار برس ہے، ان دنوں سے جو تم شمار کرتے ہو۔ مفسر المراغی، ابن عاشور، ابوبکر الجزائری صاحب ایسر التفاسیر، ابراہیم القطان صاحب تیسیرالتفسیر اور دوسرے کئی مفسرین نے یہی معنی بیان کرنے پر اکتفا فرمایا ہے اور کئی دوسرے مفسرین نے اسے ترجیح دی ہے۔ اس معنی کو ترجیح دینے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہر معاملے کے اور ہر انسان کے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے کا ذکر فرمایا ہے، فرمایا : ﴿ وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ ﴾ [ آل عمران : ۲۸ ]، ﴿ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۲۸ ]، ﴿ وَ اِلَيْهِ يُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّهٗ ﴾ [ ھود : ۱۲۳ ]، ﴿ ثُمَّ اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ [ الأنعام : ۶۰ ] اور فرمایا : ﴿ اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا وَعْدَ اللّٰهِ حَقًّا اِنَّهٗ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ ﴾ [ یونس : ۴ ] اس تفسیر میں ایک اشکال ہے کہ سورۂ معارج (۴) میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کی مقدار پچاس ہزار سال بتائی ہے، جب کہ یہاں ایک ہزار سال کا ذکر ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہزار سال سے مراد محض کثرت ہے، کیونکہ عربی زبان میں سب سے بڑا عدد ’’أَلْفٌ‘‘ (ہزار) ہی ہے۔ اس سے زیادہ عدد کی ضرورت ہو تو دوسرے عدد ساتھ ملائے جاتے ہیں، مثلاً ’’خَمْسُوْنَ أَلْفًا‘‘ یا ’’مِائَةُ أَلْفٍ‘‘اور بعض اوقات کثرت کے اظہار کے لیے ’’أَلْفٌ‘‘ہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اس لیے’’ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَنَةٍ‘‘ اور ’’ اَلْفَ سَنَةٍ ‘‘ دونوں سے قیامت ہی کا دن مراد ہے اور دونوں عددوں سے کثرت کا اظہار مقصود ہے۔ ہو سکتا ہے اصل مدت اس سے کہیں زیادہ ہو جسے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ (واللہ اعلم) بعض مفسرین نے یہ حل بیان فرمایا ہے کہ مصیبت کے ایام لمبے ہوتے ہیں، چنانچہ پچاس ہزار سال کی لمبائی کفار کے لیے ہو گی، جیسے فرمایا : فَذٰلِكَ يَوْمَىِٕذٍ يَّوْمٌ عَسِيْرٌ (9) عَلَى الْكٰفِرِيْنَ غَيْرُ يَسِيْرٍ [ المدثر : ۹، ۱۰] ’’تو وہ اس دن، ایک مشکل دن ہے۔ کافروں پر آسان نہیں۔‘‘