نَتْلُو عَلَيْكَ مِن نَّبَإِ مُوسَىٰ وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
ہم آپ کے سامنے موسیٰ اور فرعون کے کچھ حالات ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائیں۔ (٣)
1۔ نَتْلُوْا عَلَيْكَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰى وَ فِرْعَوْنَ: ’’ نَبَاِ ‘‘ اس خبر کو کہتے ہیں جو اہم اور شان والی ہو۔ ’’ مِنْ ‘‘ بعض کے معنی میں ہے، اس لیے ترجمہ ’’کچھ خبر‘‘ کیا گیا ہے۔ شوق دلانے کے لیے قصے کا آغاز ان الفاظ سے فرمایا، ہم تجھ پر موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے اہم واقعے کا کچھ حصہ حق کے ساتھ، یعنی ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں۔ 2۔ لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ: ’’یعنی مسلمان اپنا حال قیاس کر لیں ظالموں کے مقابلہ میں۔‘‘ (موضح) مطلب یہ ہے کہ اس قصے میں مسلمانوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ فرعون سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہو سکتا اور بنی اسرائیل سے زیادہ کوئی مظلوم نہیں۔ تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے بنی اسرائیل کو کمزور ہونے کے باوجود فرعون کے مقابلے میں کامیاب کیا، اسی طرح جو مسلمان مکہ میں کمزور اور مغلوب ہیں، یا دنیا کے کسی بھی خطے میں یا کسی بھی وقت مظلوم و مجبور ہوں گے، انھیں ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیے، اللہ تعالیٰ ان کی بھی اسی طرح مدد فرمائے گا، انھیں دشمنوں سے نجات دلائے گا اور ان کے دشمنوں کو نیست و نابود کرے گا۔ 3۔ لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ: جیسا کہ سورۂ بقرہ کے شروع میں اس کتاب لا ریب کو صرف متقین کے لیے ہدایت قرار دیا، اسی طرح یہاں فرمایا کہ ہم آپ کو موسیٰ اور فرعون کے قصے کا کچھ حصہ ان لوگوں کے لیے سنا رہے ہیں جو ایمان رکھتے ہیں، کیونکہ سنتے اگرچہ کافر بھی ہیں مگر فائدہ صرف اہلِ ایمان ہی اٹھاتے ہیں۔ جن لوگوں نے طے کر رکھا ہے کہ ہم نے ماننا ہی نہیں، انھیں اس واقعے سے بلکہ پورے قرآن سے کچھ حاصل نہیں۔ کچھ حصہ اس لیے فرمایا کہ اس قصے کے بہت سے حصے اس سورت کے بجائے دوسری سورتوں میں ہیں اور قرآن کوئی بھی واقعہ بطور تاریخ پورا بیان نہیں کرتا، بلکہ اس کے صرف وہ حصے بیان کرتا ہے جن کی ضرورت ہوتی ہے۔ 4۔ اس واقعہ کے لیے مزید ملاحظہ کریں سورۂ بقرہ (رکوع ۶)، اعراف (رکوع ۱۳ تا ۱۶)، یونس (رکوع ۸، ۹)، ہود (رکوع ۹)، بنی اسرائیل (رکوع ۱۲)، مریم (رکوع ۴)، طٰہٰ (رکوع ۱ تا ۵)، مومنون (رکوع۳)، شعراء (رکوع ۲ تا ۴)، نمل (رکوع ۱)، عنکبوت (رکوع۴)، مومن (رکوع ۳ تا ۵)، زخرف (رکوع ۵)، دخان (رکوع ۱)، ذاریات (رکوع ۲) اور نازعات (رکوع ۱)۔