سورة النمل - آیت 63

أَمَّن يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَن يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ تَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور کون ہے جو خشکی اور سمندرکی تاریکیوں میں تمہیں راستہ دکھاتا ہے اور کون بارش سے پہلے خوش خبری دینے کے لیے ہوائیں چلاتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ ہے ؟” اللہ“ بلند وبالا کے ساتھ لوگ شریک بناتے ہیں۔“ (٦٣)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَمَّنْ يَّهْدِيْكُمْ فِيْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ : یعنی یا وہ بہتر ہے جس نے ستاروں کے ذریعے سے ایسا انتظام کر دیا ہے کہ تم رات کے اندھیرے میں بھی اپنا راستہ تلاش کر سکتے ہو۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکیمانہ تدبیروں میں سے ایک ہے کہ اس نے بحری اور بری سفروں میں انسان کی رہنمائی کے لیے وہ ذرائع پیدا کر دیے ہیں جن سے وہ اپنی سمت، سفر اور منزل مقصود کی طرف راہ متعین کرتا ہے۔ دن کے وقت زمین کی مختلف علامتیں اور آفتاب کے طلوع و غروب کی سمتیں اس کی مدد کرتی ہیں اور تاریک راتوں میں تارے اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔ سورۂ نحل میں ان سب کو اللہ تعالیٰ کے احسانات میں شمار کیا گیا ہے، فرمایا : ﴿ وَ عَلٰمٰتٍ وَ بِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُوْنَ ﴾ [ النحل : ۱۶ ] ’’اور علامتیں (بنائیں) اور ستاروں کے ساتھ وہ راستہ معلوم کرتے ہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن) پھر مقناطیس میں قطب نمائی کی خاصیت رکھ کر بندوں کو اس سے آگاہ کر دینا بحرو بر اور دن رات میں رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ وَ مَنْ يُّرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ: رحمت سے مراد یہاں بارش ہے، جس کے آنے سے پہلے ہوائیں اس کی آمد کی خبر کر دیتی ہیں۔