وَإِنِّي مُرْسِلَةٌ إِلَيْهِم بِهَدِيَّةٍ فَنَاظِرَةٌ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ
میں ان لوگوں کی طرف ایک ہدیہ بھیجتی ہوں پھر دیکھتی ہوں کہ میرے سفیر کیا جواب لے کر پلٹتے ہیں۔“ (٣٥)
وَ اِنِّيْ مُرْسِلَةٌ اِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ ....: اس کے بعد اس نے طے کیا کہ حالات کا جائزہ لیتی رہے اور سلیمان علیہ السلام سے موافقت کرکے صلح کرلے۔ چنانچہ اس نے اپنے سرداروں سے کہا کہ میں اس کی طرف ان کے شایان شان تحفہ بھیجتی ہوں، پھر دیکھتی ہوں کہ وہ میرے قاصدوں کو کیا جواب دیتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ وہ تحفہ قبول کر لیں اور ہم ہر سال کچھ رقم بطور جزیہ بھیجتے رہیں اور وہ ہم پر چڑھائی کا خیال ترک کر دیں۔ یہ خاتون اپنے شرک کی حالت اور اسلام کی حالت دونوں میں بہت عقل مند تھی۔ وہ جانتی تھی کہ کسی کے شوق کے مطابق تحفہ وہ چیز ہے جو لوہے کو بھی نرم کر دیتا ہے، اور اسے یہ بھی آزمانا تھا کہ دیکھیں وہ ہمارے اس مال کو قبول کرتے ہیں یا نہیں، اگر قبول کر لیا تو سمجھ لو کہ وہ ایک بادشاہ ہیں، پھر ان سے مقابلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر واپس کر دیا تو ان کی نبوت میں کوئی شک نہیں، پھر مقابلہ سراسر بے سود بلکہ مُضِر ہے۔ مفسرین نے ان تحائف کی عجیب و غریب تفصیلات بیان کی ہیں جو سب اسرائیلیات ہیں، ان میں سے ایک بھی ثابت نہیں۔