سورة النمل - آیت 34

قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً ۖ وَكَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

ملکہ نے کہا کہ بادشاہ جب کسی ملک میں گھس آتے ہیں تو اسے برباد اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں یہی کچھ وہ کریں گے۔ (٣٤)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً ....: ملکہ ان سے زیادہ سمجھ دار تھی اور سلیمان علیہ السلام کے متعلق ان سے زیادہ علم رکھتی تھی، انھوں نے اگرچہ جنگ کے حق میں رائے دی تھی، مگر اسے معلوم تھا کہ سلیمان علیہ السلام کے لشکروں میں انسانوں کے علاوہ جنّ اور پرندے بھی شامل ہیں اور وہ ان کا کسی صورت مقابلہ نہیں کر سکتی۔ وہ ہد ہد کے ذریعے سے آنے والے خط کا عجیب و غریب مشاہدہ بھی کر چکی تھی۔ اس لیے اس نے کہا، مجھے ڈر ہے کہ اگر ہم نے ان سے مقابلے اور لڑائی کا ارادہ کیا تو وہ اپنے لشکروں کے ساتھ حملہ آور ہو کر مجھے اور تم سب سرداروں کو خاص طور پر ذلیل و خوار یا ہلاک کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے کہا کہ بادشاہ جب کسی بستی میں بزورِ شمشیر داخل ہوتے ہیں تو اسے برباد کر دیتے ہیں اور اس کے باشندوں میں سے جو عزت والے ہوں انھیں ذلیل کر دیتے ہیں، قتل کرکے یا قیدی بنا کر، کیونکہ وہ ان کی موجودگی کو اپنی حکومت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ وَ كَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ: یہ ملکہ سبا کا قول بھی ہو سکتا ہے کہ اگر ہم نے اطاعت قبول نہ کی تو یہ لوگ بھی ایسے ہی کریں گے اور اللہ تعالیٰ کا کلام بھی ہو سکتا ہے کہ ملوک ایسے ہی کیا کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ اللہ کا ڈر نہ رکھنے والے بادشاہوں کا یہی حال ہوتا ہے، کیونکہ ان کی مہم جوئی اور دوسری قوموں پر چڑھائی اعلائے کلمۃ اللہ اور کسی نیک مقصد کے لیے نہیں ہوتی، بلکہ محض اپنی برتری کے اظہار اور دوسری قوموں کو اپنا غلام بنانے کے لیے اور ان کے تمام وسائل پر قبضے کے لیے ہوتی ہے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے وہ ظلم کی کسی صورت سے بھی دریغ نہیں کرتے، حتیٰ کہ بعض اوقات شہروں کے شہر آگ لگا کر جلا دیتے ہیں۔