أَوَلَمْ يَكُن لَّهُمْ آيَةً أَن يَعْلَمَهُ عُلَمَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ
کیا ان لوگوں کے لیے کوئی نشانی نہیں ہے۔ کہ اسے بنی اسرائیل کے علماء بھی جانتے ہیں؟“ (١٩٧)
اَوَ لَمْ يَكُنْ لَّهُمْ اٰيَةً....: یعنی کیا مشرکین مکہ کے یہ جاننے کے لیے کہ قرآن واقعی اللہ کی طرف سے نازل شدہ اور پہلی کتابوں میں مذکور ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی آخر الزماں ہیں، یہ بات کافی نہیں کہ بنی اسرائیل کے علماء اس سے واقف ہیں، جیسا کہ ان حضرات کی شہادت سے معلوم ہوا جو ان میں سے ایمان لائے، مثلاً عبد اللہ بن سلام اور سلمان فارسی رضی اللہ عنھما اور جیسا کہ ان میں سے بعض علانیہ اور بعض اپنی خصوصی مجلسوں میں اس کا ذکر کرتے ہیں، گو اپنی بعض مصلحتوں کی وجہ سے ایمان نہیں لائے۔ اہلِ کتاب کی شہادت مشرکین مکہ کے ہاں اس لیے حجت قرار پاتی ہے کہ وہ پچھلی کتابوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے انھی کی طرف رجوع کرتے تھے اور جو بات وہ کہتے تھے اسے صحیح تسلیم کرتے تھے۔ نجاشی اور اس کے درباریوں نے جعفر رضی اللہ عنہ سے سورۂ مریم کی آیات سن کر ان کے حق ہونے کا برملا اقرار کیا تھا۔ دیکھیے سورۂ مائدہ (۸۳)، مزید دیکھیے قصص (۵۲، ۵۳) آیت میں لفظ ’’اٰيَةً ‘‘ ’’ لَمْ يَكُنْ ‘‘ کی خبر ہے اور ’’ اَنْ يَّعْلَمَه....‘‘ بتاویل مصدر اس کا اسم مؤخر ہے۔ (قرطبی، شوکانی)