وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ
” اور انہیں ابراہیم کے حالات سناؤ۔ (٦٩)
وَ اتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِيْمَ: سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شدت غم کا ذکر فرمایا، جو آپ کو اپنی قوم کے ایمان نہ لانے پر لاحق ہوئی تھی۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کا بیان فرمایا، تاکہ آپ کو تسلی ہو اور آپ کو یاد رہے کہ نہ آپ پہلے رسول ہیں اور نہ ہی آپ کی قوم جھٹلانے میں پہلی ہے، بلکہ موسیٰ علیہ السلام کے عظیم الشان معجزے لے کر آنے کے باوجود قبطیوں کے بہت ہی کم لوگ ان پر ایمان لائے۔ اس کے بعد ابو الانبیاء ابراہیم علیہ السلام کا ذکر فرمایا جو خلیل اللہ کے بلند منصب پر فائز تھے، تاکہ آپ کے سامنے وہ شخصیت بھی رہے جس کا غم بھی بے انتہا تھا، کیونکہ وہ اپنے باپ اور اپنی قوم کو آگ میں جاتے ہوئے دیکھتا تھا، مگر انھیں اس سے بچا نہ سکتا تھا۔ اس نے انھیں ہر طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی، حتیٰ کہ دلیل کے ساتھ انھیں بالکل لاجواب کر دیا، مگر انھوں نے نہیں مانا، بلکہ آباء کی تقلید ہی پر جمے رہے۔ فرمایا : ’’اور ان (مشرکین مکہ) کے سامنے ابراہیم علیہ السلام کی عظیم خبر بھی پڑھ۔‘‘