وَإِذَا أُلْقُوا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُّقَرَّنِينَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُورًا
جب یہزنجیروں سے جکڑے ہوئے اس میں ایک تنگ جگہ ٹھونسے جائیں گے تو اپنی موت کو پکاریں گے۔ (١٣)
وَ اِذَا اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا....:’’ مُقَرَّنِيْنَ ‘‘ ’’قَرَنَ الثَّوْرَيْنِ‘‘ (ض) اس نے دو بیل ایک لکڑی میں اکٹھے جوڑ دیے۔ ’’ قَرَنَ الْبَعِيْرَيْنِ‘‘ اس نے دو اونٹ ایک رسی میں اکٹھے باندھ دیے۔ ’’ مُقَرَّنِيْنَ ‘‘ باب تفعیل سے اسم مفعول ہے، اس میں باندھنے کی شدت کا اظہار ہو رہا ہے۔ اس سے دو چیزوں کا مفہوم ظاہر ہوتا ہے، ایک ان کے ہاتھوں، پاؤں اور گردنوں کا زنجیروں سے بندھا ہوا ہونا اور دوسرا ایک قسم کے کئی مجرموں کا ایک ہی جگہ ہونا۔ (دیکھیے نمل : ۸۳۔ حم السجدہ : ۱۹) یعنی جہنم میں ہر مجرم کے لیے اتنی تنگ جگہ ہو گی جہاں سے وہ ہل بھی نہیں سکے گا، اس کے علاوہ ایک ہی قسم کے کئی مجرم ایک ساتھ ہوں گے۔ (دیکھیے ابراہیم : ۴۹۔ ہمزہ : ۸، ۹) جہنم کی آگ کی لپٹیں انھیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہو ں گی، اس وقت وہ سخت مصیبت سے گھبرا کر موت کو پکاریں گے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یعنی ایک بار مریں تو چھوٹ جائیں، دن میں ہزار بار مرنے سے بدتر حال ہوتا ہے۔‘‘ (موضح)