سورة النور - آیت 64

أَلَا إِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قَدْ يَعْلَمُ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ وَيَوْمَ يُرْجَعُونَ إِلَيْهِ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اچھی طرح جان لو ! آسمان و زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے۔ تم جس روش پربھی ہو اللہ اس کو جانتا ہے جس دن لوگ اس کی طرف پلٹائے جائیں گے وہ انہیں بتائے گا کہ وہ کیا کچھ کرکے آئے ہیں اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔“ (٦٤)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَلَا اِنَّ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ : طبری نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، یاد رکھو، سارے آسمان اور زمین اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور مملوک کو لائق نہیں کہ اپنے مالک کے حکم کی نافرمانی کرے اور اس کی سزا کا حق دار بنے۔ فرماتے ہیں، لوگو! اسی طرح تمھارے لیے بھی اپنے رب کے حکم کی جو تمھارا مالک ہے، خلاف ورزی کرنا درست نہیں، سو اس کی اطاعت کرو، اس کے حکم پر عمل کرو اور جب تم اس کے رسول کے ساتھ کسی جامع کام میں حاضر ہو تو اس کی اجازت کے بغیر مت نکلو۔‘‘ (طبری : ۲۶۴۷۶) قَدْ يَعْلَمُ مَا اَنْتُمْ عَلَيْهِ : یعنی تم جس روش پر قائم ہو، وہ اچھی ہے یا بری، اللہ تعالیٰ یقیناً اسے جانتا ہے۔ وَ يَوْمَ يُرْجَعُوْنَ اِلَيْهِ....: خبر دینے سے مراد ان کے اعمال کی جزا دینا ہے۔ منافقین کا خطاب کے بعد غائب کے صیغے سے ذکر التفات ہے، جس سے ناراضی کا اظہار ہو رہا ہے۔ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ : یہ ’’ قَدْ يَعْلَمُ مَا اَنْتُمْ عَلَيْهِ ‘‘ کے مضمون کی تکمیل ہے، پہلے صرف منافقین کے احوال جاننے کا ذکر فرمایا، اب فرمایا، وہ صرف تمھارے احوال ہی نہیں بلکہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔