سورة الأنبياء - آیت 30

أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۖ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” کیا وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا غور نہیں کرتے کہ آسمان زمین باہم ملے ہوئے تھے ہم نے انہیں الگ الگ کیا اور ہرزندہ چیز پانی سے پیدا کی ؟ کیا پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتے۔“ (٣٠)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَوَ لَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا....: ’’ رَتْقًا ‘‘ کا معنی دو یا کئی چیزوں کا آپس میں سختی سے جڑا اور چپکا ہوا ہونا ہے، خواہ وہ فطری ہو (جیسے پتھر) یا کسی کے بنانے سے۔ (راغب) یہ مصدر بمعنی اسم فاعل برائے مبالغہ ہے، یعنی بالکل بند۔ ’’فَتْقٌ‘‘ کا معنی ایسی جڑی ہوئی چیزوں کو الگ الگ کرنا ہے۔ ’’ اَوَ لَمْ يَرَ ‘‘ کا معنی ہے ’’اور کیا دیکھا نہیں‘‘ اور جہاں دیکھی جانے والی چیز نہ ہو وہاں معنی ہے ’’اور کیا جانا نہیں۔‘‘ (دیکھیے سورۂ فیل) اس آیت کے دو معنی ہیں اور دونوں درست ہیں۔ طبری نے حسن سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے نقل کیا ہے: ((كَانَتَا مُلْتَزِقَتَيْنِ )) ’’سارے آسمان اور زمین آپس میں سختی سے ملے ہوئے تھے۔‘‘ یعنی کیا یہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ بے بس ہستیوں کو شریک بنا رہے ہیں، انھیں معلوم نہیں کہ سارے آسمان اور زمین ایک ٹھوس تودہ تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پناہ قوت اور کمالِ قدرت کے ساتھ ان کو الگ الگ کرکے درمیان میں ہوا اور خلا کا فاصلہ کر دیا اور آسمانوں کو سات آسمان اور زمین کو سات زمینیں بنا دیا۔ دیکھیے سورۂ طلاق(۱۲) بھلا اس کے سوا کسی کی یہ مجال ہے؟ آج کل سائنس بھی تسلیم کرتی ہے کہ کائنات پہلے ایک تودے کی شکل میں تھی، پھر ایک بہت بڑے دھماکے کے ساتھ جدا جدا ہوئی، مگر بے چارے سائنس دان وہ دھماکا کرنے والے سے ناآشنا ہی رہے۔ (الا ما شاء اللہ) دوسرا معنی یہ ہے کہ کیا اللہ کی توحید کے منکروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان بند تھا، اس سے ایک قطرہ نہیں برستا تھا اور زمین بند تھی، اس سے ایک پتا نہیں اگتا تھا؟ ہم نے اپنی قدرتِ کاملہ کے ساتھ اپنی مخلوق کے فائدے کے لیے بارش کے ساتھ آسمان کے دہانے کھول دیے اور اس کے ساتھ زمین کے مسام کھول کر طرح طرح کی نباتات پیدا فرما دیں۔ وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ : اس میں انسان، حیوان، پودے اور درخت سب شامل ہیں۔ پانی سے جاندار چیز کی پیدائش کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ نور (۴۵) اور نباتات کی پیدائش کے لیے دیکھیے سورۂ انعام (۹۹)۔ 3۔ ہمارے استاذ محمد عبدہ رحمہ اللہ امام رازی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’یعنی جن چیزوں میں جان ہے، جیسے حیوانات اور نباتات، ان سب کی پیدائش پانی سے ہے، لیکن فرشتے اور جن یا دوسری کوئی چیز جس کے متعلق ثابت ہو جائے کہ اس کے مادہ میں پانی کو دخل نہیں ہے، وہ اس سے مستثنیٰ قرار پائیں گی۔‘‘ (کبیر) دراصل یہ اس سوال کا جواب ہے کہ فرشتے اور جن تو پانی سے نہیں بلکہ نور اور آگ سے پیدا ہوئے ہیں، ان کی پیدائش پانی سے کیسے تسلیم کی جا سکتی ہے؟ اس جواب کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ’’ كُلٌّ ‘‘ سے مراد کائنات کی ہر چیز نہیں ہوتی، بلکہ ہر موقع کی مناسبت سے ’’كُلٌّ‘‘ کا معنی کیا جاتا ہے، جیسا کہ ملکہ سبا کے متعلق ہد ہد نے کہا تھا: ﴿ وَ اُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ﴾ [ النمل : ۲۳ ] ’’اور اسے ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا ہے۔‘‘ اور قوم عاد پر آنے والی آندھی کے متعلق اللہ نے فرمایا: ﴿ تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍۭ بِاَمْرِ رَبِّهَا ﴾ [ الأحقاف : ۲۵ ] ’’جو ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے برباد کر دے گی۔‘‘مفسر رازی کا یہ جواب معقول ہے۔ تاہم اگر ’’كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ‘‘ہر زندہ چیز کا وجود پانی سے مان لیا جائے، جس میں انسان کے ساتھ جن اور فرشتے بھی شامل ہوں تو کچھ بعید نہیں، جب مٹی سے بننے والے انسان کا اصل پانی ہے تو آگ اور نور سے بننے والے جنوں اور فرشتوں کا اصل بھی پانی ہو سکتا ہے۔ آج جب ایٹم کو پھاڑنے کی صورت میں مادے کا توانائی میں بدلنا مشاہدے سے ثابت ہو چکا ہے، جس سے انسان کو بے پناہ تعمیری اور تخریبی قوت حاصل ہوئی ہے اور قیامت کے دن سمندر کے پانی آگ کی صورت اختیار کر جائیں گے (دیکھیے سورۂ تکویر : ۶) تو اللہ کے حکم سے پانی آگ کے علاوہ نور کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے۔ (واللہ اعلم) اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ : یعنی زمین و آسمان میں حیرت انگیز نظام قائم کرنے والے ہم ہیں، کوئی اور نہیں، کیا اس پر بھی یہ لوگ توحید کا راستہ اختیار نہیں کرتے، بلکہ دوسروں کو ہمارا شریک سمجھ رہے ہیں؟ 5۔ رازی فرماتے ہیں : ’’اس آیت (۳۰) سے آیت (۳۳) تک چار آیات میں کائنات کو بنانے والے کے وجود اور اس کے صرف ایک ہونے کے چھ قسم کے دلائل مذکور ہیں۔‘‘ (کبیر)