وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ
” زمین اور آسمانوں میں جو بھی مخلوق ہے اللہ کی ہے اور جو اس کے حضور رہتے ہیں وہ اس کی بندگی سے نہ سرتابی کرتے ہیں اور نہ ہی تھکتے ہیں۔ (١٩)
1۔ وَ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ : ’’ مَنْ ‘‘ کا لفظ عموماً عقل والی مخلوقات کے لیے استعمال ہوتا ہے، اگرچہ یہاں زمین و آسمان کے عقلاء کو اللہ تعالیٰ کی ملکیت قرار دیا گیا ہے مگر اس میں آسمان و زمین، ان کے اندر پائے جانے والے تمام اَجرام فلکی اور دوسری تمام مخلوقات بھی شامل ہیں اور وہ سب اللہ کی ملکیت ہیں۔ کیونکہ یہ زمین آسمانوں کے اندر ہے اور ہر آسمان اپنے سے اوپر والے آسمان کے اندر ہے اور سب سے اوپر والا آسمان عرش کے اندر ہے اور اللہ سبحانہ عرش عظیم کا مالک ہے، جیسا کہ آگے آیت (۲۲) میں آ رہا ہے : ﴿فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُوْنَ﴾ تو اس سے عقلاً یہ بات ثابت ہوئی کہ وہ ہر چیز کا مالک ہے اور ملک یعنی بادشاہ بھی۔ (بقاعی) 2۔ وَ مَنْ عِنْدَهٗ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ : یعنی عرش اٹھانے والے (حاقہ : ۱۷) اور دوسرے فرشتے اور اللہ کی وہ مخلوق جسے وہی جانتا ہے۔ یعنی اتنی عظمت والے فرشتے جب ہمیشہ اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور اپنے آپ کو اس سے بڑا نہیں سمجھتے تو پھر انسان کی کیا بساط ہے کہ اپنے آپ کو اس کی عبادت سے بالا تر سمجھے؟ 3۔ وَ لَا يَسْتَحْسِرُوْنَ: ’’حَسَرَ يَحْسِرُ حُسُوْرًا (ض)‘‘ تھک کر رہ جانا۔ سورۂ ملک میں ہے : ﴿يَنْقَلِبْ اِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّ هُوَ حَسِيْرٌ﴾ [ الملک:۴]’’نظر ناکام ہو کر تیری طرف پلٹ آئے گی اور وہ تھکی ہوئی ہو گی۔‘‘ یہاں ایک سوال ہے کہ ’’يَسْتَحْسِرُوْنَ ‘‘ باب استفعال سے ہے جس میں طلب کا معنی پایا جاتا ہے، یا حروف میں اضافے کی وجہ سے معنی میں مبالغہ ہو جاتا ہے، یہاں باب استفعال لانے میں کیا نکتہ ہے؟ اہلِ علم نے اس کے مختلف جواب دیے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ ’’ وَ لَا يَسْتَحْسِرُوْنَ أَيْ لَا يَطْلُبُوْنَ أَنْ يَّنْقَطِعُوْا عَنْ ذٰلِكَ فَأَنْتَجَ ذٰلِكَ قَوْلُهُ ’’ يُسَبِّحُوْنَ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ ‘‘ ’’یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے تھکنا چاہتے ہی نہیں اور انھیں اس کی طلب ہی نہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ رات دن اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں، وقفہ نہیں کرتے۔‘‘ (بقاعی) اس کا سب سے اچھا جواب وہ ہے جو ابوالسعود اور آلوسی رحمھما اللہ نے دیا ہے کہ جب حرفِ نفی مبالغہ کے لفظ پر آئے تو مراد مبالغہ کی نفی نہیں ہوتی بلکہ نفی میں مبالغہ ہوتا ہے، جیسا کہ ’’وَ مَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِ ‘‘ کا معنی یہ نہیں ہو گا کہ ’’تیرا رب بندوں پر بہت زیادہ ظلم کرنے والا نہیں‘‘ بلکہ یہ ہو گا کہ ’’تیرا رب بندوں پر کچھ بھی ظلم کرنے والا نہیں۔‘‘ دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۸۲) اور انفال (۵۱) چنانچہ ’’وَ لَا يَسْتَحْسِرُوْنَ‘‘ کا معنی ہوگا ’’اور وہ ذرا برابر نہیں تھکتے۔‘‘ ’’ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ‘‘ کی بھی یہی توجیہیں ہیں۔ اس کی ہم معنی آیات کے لیے دیکھیے سورۂ نحل (۴۹، ۵۰) اور نساء (۱۷۲)۔