بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ
بلکہ ہم باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتا ہے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے مٹ جاتا ہے اور یہ باتیں بنانے کی وجہ سے تمہارے لیے تباہی ہے۔“ (١٨)
1۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ....: ’’ قَذَفَ يَقْذِفُ‘‘ (ض) کا معنی کسی چیز کو سختی کے ساتھ پھینک مارنا۔ ’’فَيَدْمَغُهٗ ‘‘ ’’دَمَغَ يَدْمَغُ ‘‘ (ف) کسی چیز کا دماغ کو توڑنا، یہاں تک کہ اس کی وہ جھلی پھٹ جائے جس کے پھٹنے سے روح نکل جاتی ہے۔ ’’زَاهِقٌ ‘‘ ’’زُهُوْقٌ‘‘ کا معنی کسی چیز کا مکمل طور پر ختم ہو جانا ہے۔ یعنی ہم نے اس کائنات کو بے مقصد نہیں بنایا، بلکہ اس میں حق و باطل کا معرکہ جاری ہے اور اس کا نظام ہم نے اس طرح بنایا ہے کہ باطل نے جب بھی سر اٹھایا حق نے ضرب کاری لگا کر اسے نیست و نابود کر دیا۔ اسی طرح اب بھی بالآخر باطل فنا ہو جائے گا اور حق قائم و دائم رہے گا۔ 2۔ ’’ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ ‘‘ میں ’’إِذَا‘‘ فجائیہ یعنی اچانک کے معنی میں ہے اور ’’ هُوَ زَاهِقٌ ‘‘ جملہ اسمیہ ہے جو استمرار کے لیے ہے اور جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ باطل نہایت تیزی کے ساتھ مٹتا ہے اور اس کا مٹنا عارضی نہیں دائمی ہوتا ہے۔ (آلوسی) 3۔ وَ لَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ : یعنی اگر تم یہ کہو گے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کا یہ سلسلہ ایک کھیل بنایا ہے اور دوبارہ زندہ ہونا، حساب کتاب اور جنت و دوزخ سب فرضی قصے کہانیاں ہیں تو تمھارے اس بیان کا نتیجہ تمھاری بربادی کی صورت میں ظاہر ہو گا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔