سورة الأنبياء - آیت 9

ثُمَّ صَدَقْنَاهُمُ الْوَعْدَ فَأَنجَيْنَاهُمْ وَمَن نَّشَاءُ وَأَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” پھر ہم نے ان کے ساتھ اپنے وعدے پورے کیے۔ انہیں اور جس کو ہم نے چاہا بچا لیا اور حد سے گزرجانے والوں کو ہلاک کردیا۔ (٩)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

ثُمَّ صَدَقْنٰهُمُ الْوَعْدَ....: ’’ صَدَقَ يَصْدُقُ‘‘ لازم بھی آتا ہے، یعنی سچ کہنا اور متعدی بھی، یعنی سچا کر دکھانا، ’’پھر ہم نے ان سے وعدہ سچا کر دیا۔‘‘ ’’ ثُمَّ ‘‘ (پھر) کا لفظ یہ بتانے کے لیے ہے کہ رسولوں کی مخالفت ہوئی، انھیں ستایا گیا، جنگیں بھی ہوئیں مگر پھر آخر کار ہم نے ان سے مدد کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کیا، سو ہم نے رسولوں کو نجات دی اور ان کو بھی جنھیں ہم چاہتے تھے۔ اس میں رسولوں کے پیروکار بھی شامل ہیں اور کفار میں سے وہ بھی جنھیں آئندہ ایمان لانا تھا، یا جن کی اولاد کو ایمان کی توفیق ملنا تھی۔ عربوں پر سب کو ہلاک کرنے والا عذاب نہ آنے میں یہی حکمت تھی۔ ’’اور حد سے بڑھنے والوں کو ہلاک کر دیا‘‘ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں کے لیے خوش خبری ہے اور کفار کے لیے وعید۔ رسولوں سے کیے گئے مدد کے وعدے اور اسے پورا کرنے کے ذکر پر مشتمل آیات سورۂ مجادلہ (۲۱)، صافات (۷۱ تا ۷۳)، ابراہیم (۱۳، ۱۴) اور یوسف (۱۱۰) میں ملاحظہ فرمائیں۔