قَالُوا لَن نُّؤْثِرَكَ عَلَىٰ مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالَّذِي فَطَرَنَا ۖ فَاقْضِ مَا أَنتَ قَاضٍ ۖ إِنَّمَا تَقْضِي هَٰذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا
” جادوگروں نے جواب دیا قسم ہے اس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ ہم واضح نشانیاں آجانے کے بعد بھی تجھے ترجیح دیں تو جو کچھ کرنا چاہتا ہے کرلے۔ تو بس اسی دنیا کی زندگی کا فیصلہ کرسکتا ہے۔
قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَكَ عَلٰى مَا جَآءَنَا....: مگر جادوگروں کا ایمان تو ایک لمحہ میں اس قدر پختہ ہو گیا تھا کہ نہ ان کے دل میں مال و دولت اور دنیوی جاہ و منصب کی کچھ قدر باقی رہ گئی، جس کے لیے انھوں نے یہ مقابلہ کیا تھا اور نہ اب فرعون کی دھمکیوں کا ان پر کچھ اثر ہوا۔ چنانچہ انھوں نے کہا کہ تو اس سے زیادہ کیا کر سکتا ہے کہ ہماری چند روزہ دنیاوی زندگی کا خاتمہ کر دے؟ سو ہمیں اس کی پروا نہیں۔ مگر آج ایک شخص ساٹھ سال قرآن پڑھ کر بھی حقیر دنیا کے بدلے اپنے ایمان کو فروخت کر دیتا ہے۔