سورة طه - آیت 18

قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَىٰ غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَىٰ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

موسیٰ نے جواب دیا یہ میری لاٹھی ہے اس پر ٹیک لگا تا ہوں اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں۔ اس سے اور بھی کام لیتا ہوں۔“ (١٨)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالَ هِيَ عَصَايَ....: جواب میں اگرچہ اتنا ہی کہہ دینا کافی تھا کہ ’’یہ میری لاٹھی ہے‘‘ مگر موسیٰ علیہ السلام نے یہ بتانے کے بعد اس کے کئی فوائد بھی بیان کر دیے۔ اس کی ایک توجیہ تو یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے خیال کیا کہ یہ بات ظاہر ہے کہ میرے ہاتھ میں لاٹھی ہے اور ظاہر بات کے متعلق سوال نہیں ہوتا، اس لیے انھوں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ اس لیے پوچھا ہے کہ میں بتاؤں کہ میں نے لاٹھی کیوں پکڑ رکھی ہے؟ اس لیے جواب میں ’’یہ لاٹھی ہے‘‘ کہہ کر اس کے چند فوائد بیان کیے، مگر آخر میں بات مختصر کر دی کہ اگر مزید وضاحت کی ضرورت ہوئی تو پھر پوچھ لیا جائے گا۔ (ابن عاشور) دوسری توجیہ علمائے معانی نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کی لذت میں بے اختیار بات لمبی ہوتی گئی، مگر ایک طرف فرط محبت کا تقاضا تھا کہ بات لمبی سے لمبی ہوتی جائے، تو دوسری طرف ادب زیادہ بات کرنے سے مانع تھا، اس لیے ایک اپنی ضرورت ’’ٹیک لگانا‘‘ اور ایک اپنی بکریوں کی ضرورت ’’پتے جھاڑنا‘‘ بیان کر کے آخر میں یہ کہہ کر بات مختصر کر دی کہ ’’وَ لِيَ فِيْهَا مَاٰرِبُ اُخْرٰى ‘‘ یہ توجیہ بھی بہترین ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے لاٹھی کے بہت سے دیگر فوائد بھی بیان کیے ہوں جن کا ماحصل اللہ تعالیٰ نے اپنے الفاظ میں بیان فرما دیا ہو۔ اس صورت میں یہ اختصار موسیٰ علیہ السلام کے کلام میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں ہو گا۔ (واللہ اعلم) وَ اَهُشُّ بِهَا عَلٰى غَنَمِيْ....: حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ سے ’’هَشٌّ‘‘ کا معنی یہ نقل کیا ہے کہ لاٹھی کے ساتھ ٹہنی کو ہلانا، تاکہ پتے گر پڑیں مگر شاخ نہ ٹوٹے۔ یہ لفظ لاٹھی مار کر پتے جھاڑنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ ’’ وَ لِيَ فِيْهَا مَاٰرِبُ اُخْرٰى ‘‘ ’’مَأْرَبَةٌ‘‘ (را کے فتحہ، کسرہ اور ضمہ کے ساتھ) کی جمع، حاجت یعنی وہ کام جن کی ضرورت پڑتی ہے۔ لاٹھی کے فوائد پر جاحظ نے ’’کتاب العصا‘‘ لکھی ہے جس میں لاٹھی کے فوائد اور عربوں کے بہت سے واقعات لکھے ہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ ابن الاعرابی سے پوچھا گیا کہ ’’وَ لِيَ فِيْهَا مَاٰرِبُ اُخْرٰى‘‘ سے کیا مراد ہے؟ تو انھوں نے فرمایا : ’’میں موسیٰ علیہ السلام کی تمام ضروریات تو بیان نہیں کر سکتا، البتہ لاٹھی کی ضرورت کی چند چیزیں تمھیں بتاتا ہوں، وہ یہ کہ لاٹھی سانپ، بچھو، بھیڑیے، بپھرے ہوئے سانڈ اور کھیت اجاڑنے والے جانوروں کے لیے ساتھ رکھی جاتی ہے۔ بڑی عمر کے بوڑھے، کمزور و بیمار لوگ، کٹی ہوئی ٹانگ والے اور لنگڑے اس کا سہارا لیتے ہیں، یہ انھیں دوسری ٹانگ کا کام دیتی ہے۔ اندھے کو قائد کا کام دیتی ہے۔ دھوبی، رنگ ریز اور تنور اور چولھے کی راکھ ہلانے والوں کے کام آتی ہے۔ چونا کوٹنے، تل وغیرہ چھڑنے کے کام آتی ہے۔ ڈاک لے جانے والوں اور کرائے کے جانوروں کے ساتھ جانے والوں کے کام آتی ہے کہ فاصلہ لمبا ہو تو وہ لاٹھی کے سہارے چھلانگ لگاتے جاتے ہیں۔ فالج زدہ کے جھکاؤ کو سیدھا کرتی ہے اور رعشہ کے مریض کے لرزہ کو کنٹرول کرتی ہے۔ چرواہے اسے بکریوں کے لیے اور تمام سوار اپنی سواری کے لیے ساتھ رکھتے ہیں۔ کوئی بھاری بوجھ ہو تو اس میں داخل کرکے اسے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا جاتا ہے۔ بعض اوقات دو آدمی اس کا ایک ایک کنارہ پکڑ لیتے ہیں۔ چاہو تو دیوار میں ٹھونک کر میخ بنا لو یا کھلی جگہ میں گاڑ کر سترہ بنا لو یا چھتری بنا لو۔ اگر نوک لگا دو تو برچھی بن جائے گی، کچھ اور بڑھا دو تو نیزہ بن جائے گی۔ لاٹھی کوڑے کا کام بھی دیتی ہے اور اسلحہ بھی ہے۔ کندھے پر رکھ کر اس کے ساتھ کمان، ترکش اور پانی یا دودھ وغیرہ کا برتن بھی لٹکا سکتے ہو۔ کنویں سے پانی نکالنے کے لیے رسی چھوٹی ہو تو لاٹھی ساتھ ملا کر پانی نکال سکتے ہو۔ چادر اس کے اوپر ڈال کر سایہ حاصل کر سکتے ہو اور درندوں کا مقابلہ کر سکتے ہو وغیرہ۔‘‘