فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَن لَّا يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَتَرْدَىٰ
پس جو شخص اس پر ایمان نہیں لاتا اور وہ اپنی خواہش کا بندہ بن گیا ہے وہ آپ کو قیامت کی سوچ سے نہ روک دے۔ ورنہ آپ ہلاکت میں پڑجائیں گے۔“ (١٦)
فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا....: اس آیت سے حاصل ہونے والے فوائد میں سے ایک فائدہ مفسر زمخشری کے الفاظ میں یہ ہے : ’’جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ جم غفیر ہیں، کیونکہ کفار کے لیے قیامت کو تسلیم کرنے سے زیادہ مشکل کوئی چیز نہیں، نہ ہی وہ اس سے زیادہ کسی چیز کا انکار کرتے ہیں۔ سو ایسا ہر گز نہ ہو کہ ان کی طرف سے آنے والے مصائب کی کثرت اور ان کی بہت بڑی تعداد تمھیں خوف زدہ کر دے اور ان کی کثرت تمھارے قدم پھسلنے کا باعث بن جائے۔ یاد رکھو کہ وہ جس قدر بھی تعداد میں زیادہ ہوں وہ صرف اور صرف اپنی خواہش نفس کے پیچھے چل رہے ہیں، کسی دلیل و برہان کے پیچھے نہیں اور اس میں بہت بڑی ترغیب ہے کہ دلیل کا علم اور اس کی پیروی لازم ہے اور تقلید سے بچنا نہایت ضروری ہے، کیونکہ تقلید اور اہل تقلید کا انجام ہلاکت ہے۔‘‘ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ دنیا پرست لوگوں، خصوصاً کفار کی مجلس اور ان سے نرمی اور مداہنت اختیار کرنے سے پرہیز لازم ہے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’نہ روک دے اس سے ‘‘ یعنی قیامت کے یقین لانے سے یا نماز سے۔ جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو برے کی صحبت سے منع کیا تو اور کوئی کیا ہے؟‘‘ (موضح)