إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي
میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ پس میری بندگی کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔“ (١٤)
1۔ اِنَّنِيْ اَنَا اللّٰهُ : اللہ تعالیٰ نے پہلے موسیٰ علیہ السلام کو اس تعلق سے آگاہ کیا جو اللہ تعالیٰ اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان تھا کہ بلاشبہ میں تیرا رب ہوں جو تجھ سے مخاطب ہوں، یعنی تجھے پیدا کرنے والا، تیری پرورش کرنے والا اور تیری ہر ضرورت پوری کرنے والا میں ہی ہوں۔ پھر جوتے اتارنے کے حکم کے بعد وحی کو غور سے سننے کی تاکید فرمائی، کیونکہ چننے سے مقصود ہی وحی کے ذریعے سے رسالت کی ذمہ داریاں سونپنا تھا۔ اب ضمیر متکلم ـ’’ اَنَا ‘‘ کے بعد اپنا ذاتی نام بتایا، کیونکہ ملاقات میں پہلی چیز یہی ہے کہ ایک دوسرے کا نام معلوم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا کہ میں تو اپنے کلیم کا نام جانتا ہی ہوں، میرا نام اللہ ہے۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے باقی سب نام صفاتی ہیں جن میں اس کے ننانوے نام بھی شامل ہیں اور وہ بے شمار نام بھی جن سے اس نے ابھی تک کسی کو آگاہ نہیں کیا۔ لفظ ’’اللہ‘‘ عربی زبان میں اس ذات پاک کا نام ہے۔ جب ’’اللہ‘‘ کہہ دیا تو اس میں اس کے تمام نام بھی آ گئے اور تمام صفات بھی۔ ’’ إِنَّ‘‘ کے ساتھ تاکید موسیٰ علیہ السلام سے شک کا امکان دور کرنے کے لیے ہے، کیونکہ انوکھی بات سن کر جلدی یقین نہیں آتا۔ 2۔ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنَا:’’اِنَّنِيْ‘‘ کی پہلی خبر ’’اَنَا اللّٰهُ ‘‘تھی،’’لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنَا ‘‘دوسری خبر ہے۔ یہ سب سے پہلی بات ہے جسے جاننا، اس پر یقین رکھنا اور اس کے مطابق عمل کرنا ہر جن و انس پر واجب ہے۔ اسی بات کی تعلیم کے لیے تمام انبیاء مبعوث فرمائے گئے۔ دیکھیے سورۂ انبیاء (۲۵) ’’فَاعْبُدْنِيْ ‘‘ یہ ہے وہ مقصد جس کے لیے جن و انس کو پیدا کیا گیا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ ﴾ [الذاریات : ۵۶ ] ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ یعنی جب میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تو میری عبادت کر۔ عبادت میں ہر وہ عمل آ جاتا ہے جو انتہائی محبت کے ساتھ انتہائی درجے کی عاجزی اور تعظیم پر دلالت کرتا ہو، اس میں قول، فعل اور دل کا اخلاص سب شامل ہیں۔ 3۔ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ : ’’ فَاعْبُدْنِيْ ‘‘ میں اگرچہ ہر قسم کی بدنی و مالی عبادت کا ذکر آ گیا تھا، لیکن چونکہ نماز تمام عبادتوں کی جامع اور سب سے اہم عبادت ہے اور اسلام قبول کرنے کے بعد ایمان کی سب سے پہلی شرط اور علامت ہے کہ جس سے مسلمان کی پہچان ہو کر اس کا خون اور مال محفوظ ہو جاتا ہے (دیکھیے توبہ : ۵،۱۱) اس لیے اس کا خاص طور پر الگ ذکر بھی فرمایا۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’موسیٰ علیہ السلام کو پہلی وحی میں نماز کا حکم ہے اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ’’وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ‘‘ فرمایا گیا۔‘‘ (موضح) ’’ لِذِكْرِيْ ‘‘ کی دو تفسیریں ہیں اور دونوں درست ہیں۔ پہلی یہ کہ نماز کا مقصد یہ ہے کہ بندہ اللہ کی یاد سے غافل نہ ہو، ایک نماز سے فارغ ہو تو اگلی کے انتظار میں مشغول رہے، جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے : (( وَ رَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ بِالْمَسْجِدِ )) [بخاری : ۶۸۰۶] اس طرح اس کا سارا وقت ہی نماز میں شمار ہو گا جو اللہ کی یاد کا سب سے اچھا طریقہ ہے۔ دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت (۷۸) کی تفسیر۔ ہر وقت یاد رکھنے کا نتیجہ اللہ کی نافرمانی سے اجتناب ہو گا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ﴾ [العنکبوت : ۴۵ ] ’’بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘ دوسری تفسیر یہ کہ اگر بھول جائے تو یاد آنے پر نماز پڑھ لے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَهَا لاَ كَفَّارَةَ لَهَا إِلاَّ ذٰلِكَ ﴿وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ﴾ )) [بخاری، مواقیت الصلاۃ، باب من نسي صلاۃ فلیصل إذا ذکر....: ۵۹۷، عن أنس رضی اللّٰہ عنہ ] ’’جو شخص کوئی نماز بھول جائے تو جب اسے یاد آئے پڑھ لے، اس کا کفارہ اس کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی : ﴿ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ ﴾ ’’اور نماز میری یاد کے وقت قائم کر۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ نَسِيَ صَلَاةً أَوْ نَامَ عَنْهَا فَكَفَّارَتُهَا اَنْ يُصَلِّيَهَا إِذَا ذَكَرَهَا )) [مسلم، المساجد، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ....:315؍ 684، عن أنس رضی اللّٰہ عنہ ]’’جو شخص کوئی نماز بھول جائے یا اس سے سویا رہ جائے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب اسے یاد آئے پڑھ لے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ ﴾ [الکہف : ۲۴ ] ’’اور اپنے رب کو یاد کر جب تو بھول جائے۔‘‘