أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا ۖ لَٰكِنِ الظَّالِمُونَ الْيَوْمَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
جس دن وہ ہمارے پاس آئیں گے۔ اس دن ان کے کان خوب سن رہے ہوں گے اور ان کی آنکھیں بھی اچھی طرح دیکھ رہی ہوں گی مگر آج ظالم کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ (٣٨)
اَسْمِعْ بِهِمْ وَ اَبْصِرْ....: یہ دونوں فعل تعجب ہیں۔ اللہ تعالیٰ تعجب سے فرماتے ہیں کہ جس دن وہ ہمارے پاس آئیں گے تو وہ کس قدر سننے والے اور کس قدر دیکھنے والے ہوں گے۔ بعض لوگ اللہ تعالیٰ کے تعجب کرنے کو نہیں مانتے، کیونکہ تعجب تو انسان کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ انسان جیسا تو نہیں کہ تعجب کرے۔ اس لیے وہ اس کی تاویل کرتے ہیں کہ ان کی حالت ایسی ہو گی کہ اس پر تعجب کیا جائے، اگرچہ ان کی حالت واقعی ایسی ہو گی مگر جب انسان کے سننے، دیکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کو بھی سننے دیکھنے والا مانتے ہیں تو اس کے تعجب کرنے میں کیا تعجب ہے۔ ہاں انسان کا سننا، دیکھنا اور تعجب اس کی ہستی کے مطابق ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کا اس کی شان کے مطابق، جیسا کہ فرمایا : ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ﴾ [الشورٰی : ۱۱ ] ’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘ لطف کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تعجب کرنے کے منکر اس کے سمیع و بصیر ہونے اور دوسری صفات کے بھی منکر ہیں، مگر انکار ایسی تاویل کے پردے میں کرتے ہیں جو درحقیقت آیات و احادیث کی تحریف ہے۔یعنی آج تو حق سے اندھے اور بہرے ہو رہے ہیں مگر آخرت میں ان کے کان اور آنکھیں خوب کھلی ہوں گی اور کہیں گے : ﴿ رَبَّنَا اَبْصَرْنَا وَ سَمِعْنَا ﴾ [السجدۃ : ۱۲] ’’اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا‘‘ مگر اس وقت کا دیکھنا اور سننا کسی کام نہ آئے گا۔ ’’ الظّٰلِمُوْنَ ‘‘ پر الف لام عہد کا ہے، اس لیے ترجمہ ’’یہ ظالم‘‘ کیا گیا ہے۔