وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا
تو اس درخت کے تنے کو ہلا اوپر سے تازہ کھجوریں آگریں گی۔ (٢٥)
1۔ وَ هُزِّيْ اِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ....: ’’ قَرِّيْ عَيْنًا ‘‘ مشہور نحوی فراء نے فرمایا کہ قریش اور ان کے آس پاس کے لوگ ’’ قَرَّ يَقَرُّ ‘‘ (قاف کے فتحہ کے ساتھ) کہتے ہیں اور قیس، تمیم اور اہل نجد ’’قَرَّ يَقِرُّ‘‘ (قاف کے کسرہ کے ساتھ) کہتے ہیں۔ پہلی صورت میں ’’قَرِّيْ ‘‘ قاف کے فتحہ کے ساتھ ہو گا جو مشہور قراء ت ہے، دوسری صورت میں قاف کے کسرہ کے ساتھ ’’قِرِّيْ‘‘ ہو گا جو شاذ قراء ت ہے۔ مصدر ’’قُرَّةٌ وَ قُرُوْرٌ‘‘ ہے، ٹھنڈا ہونا۔ (بقاعی) تنہائی، بھوک، پیاس، ولادت کی تکلیف، ولادت کے بعد کی کمزوری اور بدنامی کے خوف میں سے ہر چیز کا اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر بہترین علاج فرما دیا۔ ایک کمزور خاتون جو ابھی ولادت کے جان شکن مرحلے سے نکلی ہو کھجور کے تنے کو کس قدر حرکت دے سکتی ہے؟ مگر فرمایا کہ اسے حرکت دو، وہ تازہ پکی ہوئی کھجوریں تم پر گرائے گی۔ اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ وہ کھجوروں کے پھل دینے کا وقت نہ تھا۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو، کیونکہ مریم علیھا السلام کو ان کے کمرے میں بے موسم رزق ملتا تھا، تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ آل عمران (۳۷) لیکن اگر کھجوروں کے پھل کا موسم بھی مانا جائے تو کوئی جوان اور مضبوط آدمی کھجور کا تنا ہلا کر دیکھ لے کہ کتنی کھجوریں گرتی ہیں؟ ولادت کی کمزوری کے لیے تمام اطباء تازہ پکی ہوئی کھجور کے مفید ہونے پر متفق ہیں۔ پینے کے لیے ان کے نیچے رب تعالیٰ نے ندی جاری فرما دی۔ تنہائی اور پریشانی کے علاج کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک، خوبصورت اور عظیم المرتبت بیٹا عطا کیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی تمام عنایات عام عادت کے خلاف معجزانہ طور پر ہوئیں۔ رہی آئندہ کی ملامت جو قوم کے پاس جانے کی صورت میں پیش آنے والی تھی، اس کا علاج یہ بتایا گیا کہ اگر کسی بھی وقت کوئی آدمی دیکھو تو اسے اشارے سے کہہ دو کہ میں نے رحمان کی خاطر روزے کی نذر مانی ہے، اس لیے میں کسی انسان سے کسی صورت بات نہیں کروں گی۔ کسی بھی وقت کسی انسان کو دیکھنے کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سارے عمل کے دوران وہ تنہا رہیں۔ 2۔ اِنِّيْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا : چونکہ شادی کے بغیر بچہ پیدا ہونے پر ملامت کرنے والوں کا کسی طرح کی صفائی دینے سے بھی مطمئن ہونا ممکن نہ تھا، اس لیے ان کے جواب میں مکمل خاموش رہنے کا حکم دیا گیا۔ جاہلوں کے جواب میں دانش مند لوگوں کا یہی وتیرہ ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا ﴾ [الفرقان : ۶۳ ] ’’اور جب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام ہے۔‘‘ عربی کا مقولہ ہے : ’’أَذَلُّ النَّاسِ سَفِيْهٌ لَا يَجِدُ مُسَافِهًا‘‘ کہ سب سے زیادہ ذلیل وہ بے وقوف ہے جسے اپنے جواب میں کوئی بے وقوفی کرنے والا نہ ملے۔ 3۔ فَلَنْ اُكَلِّمَ الْيَوْمَ اِنْسِيًّا : اس آیت سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل میں خاموشی کا روزہ رکھنا جائز تھا، مگر ہماری شریعت میں اس سے منع کر دیا گیا، بلکہ اس طرح کی نذر ماننا بھی منع ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں : (( بَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ فَسَأَلَ عَنْهٗ فَقَالُوْا أَبُوْ إِسْرَائِيْلَ نَذَرَ أَنْ يَّقُوْمَ وَلاَ يَقْعُدَ وَلاَ يَسْتَظِلَّ وَلَا يَتَكَلَّمَ وَيَصُوْمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْهٗ فَلْيَتَكَلَّمْ وَلْيَسْتَظِلَّ وَلْيَقْعُدْ وَلْيُتِمَّ صَوْمَهٗ )) [بخاري، الأیمان والنذور، باب النذر فیما لا یملک و في معصیۃ : ۶۷۰۴ ]’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، اس دوران میں آپ نے ایک آدمی کو کھڑے ہوئے دیکھا تو اس کے متعلق پوچھا، لوگوں نے بتایا کہ یہ ابو اسرائیل ہے، اس نے نذر مانی ہے کہ دھوپ میں کھڑا رہے گا، سائے میں نہیں جائے گا اور کلام نہیں کرے گا اور روزہ رکھے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اسے حکم دو کہ بیٹھ جائے اور سائے میں بھی جائے اور کلام کرے اور اپنا روزہ پورا کرے۔‘‘ ’’ فَاِمَّا ‘‘ میں ’’اِنْ‘‘ شرطیہ اور ’’مَا‘‘ ابہامیہ برائے تاکید ہے، اس لیے ترجمہ ’’اگر کبھی‘‘ کیا ہے۔