قَالَ هَٰذَا رَحْمَةٌ مِّن رَّبِّي ۖ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ ۖ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا
ذوالقرنین نے کہا یہ میرے رب کی رحمت ہے مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو زمین بوس کردے گا اور میرے رب کا وعدہ سچاہے۔“ (٩٨)
1۔ قَالَ هٰذَا رَحْمَةٌ مِّنْ رَّبِّيْ : ذوالقرنین نے دیوار بنا کر اسے اپنا کارنامہ قرار دینے کے بجائے اپنے رب کی رحمت قرار دیا، جس کی بدولت وہ لوگ یاجوج ماجوج کے حملوں سے محفوظ ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی اس کی مضبوطی کے باوجود اسے لازوال قرار دینے کے بجائے فرمایا کہ جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو وہ اسے زمین کے برابر کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ ہمیشہ سے سچا ہے۔ ذوالقرنین کی بات اور دو باغوں والے بے ایمان کی بات کا موازنہ کریں، جو اپنے باغوں کو کبھی برباد نہ ہونے والا کہہ رہا تھا، تو مومن و کافر کی سوچ کا فرق صاف واضح ہو جاتا ہے۔ 2۔ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ رَبِّيْ جَعَلَهٗ دَكَّآءَ....: ذوالقرنین کی اس بات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ساری دنیا کی بادشاہت ملنے کے باوجود آخرت کی فکر ہر وقت رہنی چاہیے، کیونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت ہمیشہ رہنے والی ہے۔ اس وعدے سے مراد قیامت کے قریب یاجوج ماجوج کے نکلنے کا وقت ہے، جیسا کہ سورۂ انبیاء (۹۶، ۹۷) میں ہے۔ زینب بنت جحش رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : (( اِسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّوْمِ مُحْمَرًّا وَجْهُهُ وَهُوَ يَقُوْلُ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ، وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ، فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوْجَ وَمَأْجُوْجَ مِثْلُ هٰذِهِ وَعَقَدَ سُفْيَانُ تِسْعِيْنَ أَوْ مِائَةً قِيْلَ أَنَهْلِكُ وَفِيْنَا الصَّالِحُوْنَ ؟ قَالَ نَعَمْ إِذَا كَثُرَ الْخَبَثُ )) [بخاری، الفتن، باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ویل للعرب....: ۷۰۵۹ ]’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے لا الٰہ الا اللہ کہتے ہوئے بیدار ہوئے، جب کہ آپ کا چہرہ سرخ تھا، فرمایا : ’’عرب کے لیے بہت بڑی تباہی ہے اس شر سے جو بہت قریب آ گیا ہے، آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا حصہ کھول دیا گیا۔‘‘ اور سفیان نے نوے (۹۰) یا سو (۱۰۰) کی گرہ بنائی، یعنی انگوٹھے اور شہادت کی انگلی ملا کر گول دائرہ بنا کر دکھایا۔ پوچھا گیا : ’’کیا ہم اپنے آپ میں صالحین کے موجود ہوتے ہوئے ہلاک ہو جائیں گے؟‘‘ فرمایا : ’’ہاں، جب برائی زیادہ ہو جائے گی۔‘‘