يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ ۖ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں؟ آپ فرمادیں جو مال تم خرچ کرو ماں باپ، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اور تم جو بھی نیکی کرو گے اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے
1۔ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے لیے حیات دنیا کے مزین کیے جانے کا ذکر فرمایا، بنی اسرائیل کے باہمی اختلاف کا باعث بھی حسد، ضد اور سرکشی بیان فرمایا، جو عموماً مال سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سوال کا ذکر فرمایا کہ وہ (اس فتنے سے بچنے کے لیے ) کیا خرچ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب بھی دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ کہاں خرچ کریں، کیونکہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے، حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ خرچ کرنے کی جگہیں بھی بتائی جائیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ صفراء (گرمی) کا کوئی مریض کسی مہربان طبیب سے پوچھے کہ میں شہد پی لوں تو وہ جواب میں کہے، پی لو، مگر سرکہ ملا کر، کیونکہ سرکہ اس کی گرمی کو کم کر دے گا۔ ان کے سوال کا جواب یہ ہے کہ ’’تم خیر میں سے جو بھی خرچ کرو ‘‘ یعنی جو چاہو خرچ کرو، مگر وہ مال حلال طریقے سے حاصل ہوا ہو، کیونکہ حرام کو خیر نہیں کہہ سکتے۔ (طنطاوی) 2۔ خرچ کرنے کی جگہوں میں سے سب سے پہلے والدین کا ذکر کیا، تاکہ ان کے جنم دینے اور پرورش کرنے کا کچھ حق ادا ہو جائے، پھر زیادہ قرابت والے، تاکہ قرابت اور رشتہ داری کا حق ادا ہو، پھر یتامیٰ، کیونکہ وہ مہربان باپ کے سائے سے محروم ہو چکے ہیں، پھر مساکین، ان کے فقر و احتیاج کی وجہ سے، پھر مسافر، کیونکہ وہ اپنے شہر سے دور ہونے کی وجہ سے ایک طرح سے محتاج ہیں۔ رازی نے فرمایا، خرچ کرنے کی جگہوں میں یہ ترتیب ہی صحیح ترتیب ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے تفصیل کے بعد خلاصہ بیان فرمایا کہ تم خیر میں سے جو عمل بھی کرو گے تو بے شک اللہ تعالیٰ اسے خوب جاننے والا ہے۔ اس میں وہ کام اور وہ جگہیں بھی آ گئیں جن کا یہاں ذکر نہیں ہوا، مثلاً سائلین اور غارمین وغیرہ، بشرطیکہ وہ کام اور وہ جگہیں خیر ہوں، کیونکہ غلط جگہ خرچ کرنا فعل خیر نہیں۔ میمون بن مہران اس آیت کو پڑھ کر کہنے لگے کہ یہ ہیں مسلمان کے خرچ کرنے کی جگہیں، ان میں طبلہ، سارنگی، لکڑی کی تصویروں اور گھر کی آرائش کا ذکر نہیں ہے۔ (ابن کثیر) 3۔ اس آیت میں زکوٰۃ کے علاوہ خرچ کا ذکر ہے جو نفل ہو یا بعض اوقات فرض، کیونکہ ماں باپ کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ دیکھیے سورۂ توبہ (۶۰)۔ 4۔ ایک روایت میں یہ سوال کرنے والا عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کو بتایا گیا ہے، مگر وہ روایت موضوع ہے، اس میں کلبی اور ابو صالح متہم بالکذب ہیں۔ (الاستیعاب فی بیان الاسباب)