سورة الإسراء - آیت 55

وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَىٰ بَعْضٍ ۖ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور آپ کا رب اس کو زیادہ جاننے والا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور بلاشبہ ہم نے انبیاء کو ایک دوسرے پر فضیلت دی اور داؤد کو زبور عطا فرمائی۔“ (٥٥)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ رَبُّكَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: لوگوں کے احوال کا ان سے بڑھ کر علم رکھنے کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ زمین و آسمان میں موجود ہر شخص (انسان ہو یا جن یا فرشتہ) سے زیادہ اس کا علم رکھنے والا ہے۔ اس لیے وہ بہتر جانتا ہے کہ کس کو نبوت و رسالت کا شرف عطا کرنا ہے، فرمایا : ﴿اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ ﴾ [ الحج : ۷۵ ] ’’اللہ فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے چنتا ہے اور لوگوں سے بھی۔‘‘ وَ لَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيّٖنَ عَلٰى بَعْضٍ : اس لیے اس کے کمال علم کا تقاضا ہے کہ وہ انبیاء و رسل میں سے جسے چاہتا ہے بعض پر فضیلت بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے سب پر فضیلت عطا فرما کر آخری نبی بنا دیتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۵۳) اس کے نزدیک انتخاب کا معیار دنیا کی دولت یا حکومت نہیں۔ داؤد علیہ السلام بکریاں چرانے والے تھے، اللہ تعالیٰ نے نبی اور بادشاہ بنا دیا، پھر مزید فضیلت بخشی تو بطور فضیلت بادشاہی کے بجائے زبور عطا فرمانے کا ذکر کیا، کیونکہ اللہ کے ہاں فضیلت کا معیار دنیا کی کوئی چیز نہیں، بلکہ آخرت کا علم اور اس کے مطابق عمل ہے۔ دراصل یہ کفار کے اس اعتراض کا جواب ہے جو وہ عموماً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا کرتے تھے کہ انھی کو رسالت کے لیے کیوں چنا گیا؟ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ زخرف ( ۳۱ تا ۳۵)۔ وَ اٰتَيْنَا دَاؤدَ زَبُوْرًا : زبور کا ذکر خاص طور پر اس لیے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النّبیین ہونے اور اس امت کے سب سے افضل ہونے پر زبور کے مضامین شہادت دے رہے ہیں۔ (دیکھیے انبیاء : ۱۰۵) ہو سکتا ہے کہ کفار سے جہاد میں مشابہت کی وجہ سے داؤد علیہ السلام کا تذکرہ کر دیا ہو۔ 4۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان : ﴿وَ لَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيّٖنَ عَلٰى بَعْضٍ ﴾اور سورۂ بقرہ(۲۵۳) میں یہ فرمان : ﴿تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ ﴾صحیح بخاری (۳۴۱۵) اور مسلم (۲۳۷۳) کی ان صحیح روایات کے منافی نہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’انبیاء کو آپس میں ایک دوسرے پر برتری (فضیلت) مت دو۔‘‘ کیونکہ اس سے مراد محض اپنی خواہش یا تعصب کی بنا پر فضیلت دینا ہے، دلیل کی بنا پر فضیلت دینا نہیں، کیونکہ جب دلیل سے کوئی بات ثابت ہو جائے تو اسے ماننا ضروری ہوتا ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ رسول انبیاء سے افضل ہیں۔