سورة الإسراء - آیت 15

مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” جس نے ہدایت پائی اس نے اپنے ہی لیے ہدایت پائی اور جو گمراہ ہوا اس کا وبال اسی پر ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور ہم پیغام پہنچانے سے پہلے کسی کو عذاب نہیں دیتے۔“ (١٥)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا يَهْتَدِيْ لِنَفْسِهٖ ....: مطلب یہ ہے کہ جو شخص سیدھے راستے پر چلتا ہے وہ کسی پر احسان نہیں کرتا، بلکہ اس کا فائدہ اسی کو پہنچتا ہے اور جو اس سے ہٹ کر غلط راستے پر چلتا ہے تو اس کا وبال بھی اسی پرہو گا۔ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى.....:’’ تَزِرُ ‘‘ ’’وَزَرَ يَزِرُ وِزْرًا‘‘ (ض) بوجھ اٹھانا۔ ’’ وَازِرَةٌ ‘‘ اسم فاعل ہے اور ’’نَفْسٌ‘‘ کی صفت ہے جو یہاں پوشیدہ ہے، یعنی کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی، بلکہ ہر ایک کو اپنا بوجھ خود اٹھانا پڑے گا۔ اس مفہوم کی کئی آیات ہیں، دیکھیے سورۂ انعام (۱۶۴) اور سورۂ فاطر (۱۸) وغیرہ۔ 3۔ بعض آیات میں کچھ لوگوں کے اپنے گناہوں کے ساتھ دوسروں کے گناہ بھی اٹھانے کا ذکر ہے، جیسا کہ سورۂ نحل (۲۵) اور عنکبوت(۱۳) میں ہے :’’وہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور ان کے بھی جن کو وہ بغیر علم کے گمراہ کرتے رہے۔‘‘ تو یہ دراصل دوسروں کا بوجھ نہیں بلکہ دوسروں کو گمراہ کرنے کی وجہ سے خود ان کا اپنا بوجھ ہے، گناہ کرنے والے اپنا بوجھ خود اٹھائیں گے۔ سورۂ مائدہ (۳۲) میں آدم علیہ السلام کے قاتل بیٹے پر ہر قتل کے گناہ کا ایک حصہ ڈالے جانے کا مطلب بھی یہی ہے۔ اسی طرح ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کہ ’’میت کو اس کے گھر والوں کے اس پر رونے سے عذاب ہوتا ہے‘‘ کا مطلب بھی اہل علم نے یہ بیان فرمایا کہ جب مرنے والا اس کی وصیت کر گیا ہو، یا اسے معلوم ہو کہ گھر والے ایسا کریں گے، مگر اس نے انھیں منع نہ کیا ہو، کیونکہ اس پر لازم تھا کہ گھر والوں کو بھی اللہ کی نافرمانی سے بچاتا۔ (دیکھیے تحریم : ۶) اگر اس کے منع کرنے کے باوجود کوئی شخص بین کرتا ہے، یا گریبان چاک کرتا ہے تو وہ اس سے بری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’كِتَابُ الْجَنَائِزِ‘‘ میں باب باندھا ہے : ’’ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَذَّبُ الْمَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ ‘‘ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ میت کو اس کے گھر والوں کے بعض قسم کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے : ’’ إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهٖ‘‘ یعنی یہ اس وقت ہے جب بین کرنا اور سننا میت کا طریقہ اور معمول ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُوْا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِيْكُمْ نَارًا ﴾ [ التحریم : ۶ ] ’’اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤلٍ عَنْ رَّعِيَّتِهِ )) [ بخاري، النکاح، باب المرأۃ راعیۃ....: ۵۲۰۰ ] ’’تم میں سے ہر ایک حکمران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہونے والا ہے۔‘‘ تو جب یہ میت کا معمول اور طریقہ نہ ہو تو وہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے فرمانے کے مطابق ﴿وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ﴾ [ الأنعام : ۱۶۴ ] (اور کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی) کا مصداق ہو گا، یعنی اسے عذاب نہیں ہو گا اور وہ اس فرمانِ الٰہی کی طرح ہو گا : ﴿وَ اِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ ﴾ [فاطر : ۱۸ ] ’’اور اگر کوئی بوجھ سے لدی ہوئی (جان) اپنے بوجھ کی طرف بلائے گی تو اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھایا جائے گا۔‘‘ [ بخاری، الجنائز، باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم : یعذب المیت ببعض بکاء أھلہ علیہ.....، قبل ح : ۱۲۸۴ ] وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا : یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے عدل کا بیان ہے، فرمایا کہ جب تک ہم کوئی پیغام پہنچانے والا نہ بھیجیں جو ان تک اللہ کے احکام پہنچا دے اور حجت پوری ہو جائے ہم کبھی عذاب دینے والے نہیں۔ یہاں بعض مفسرین نے بچپن یا زمانۂ جاہلیت میں فوت ہونے والوں کے متعلق مختلف اقوال اور ان کے دلائل کے ساتھ لمبی بحث کی ہے، مگر ایسی کہ آدمی کسی نتیجے پر نہیں پہنچتا، اس لیے میں اس بحث کو واضح طریقے سے تحریر کرتا ہوں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بچپن میں فوت ہو جانے والے بچے، خواہ مسلمانوں کے ہوں یا مشرکین کے، ان کو عذاب نہیں ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’بَابُ مَا قِيْلَ فِيْ أَوْلَادِ الْمُشْرِكِيْنَ ‘‘ میں اس کے متعلق پہلے ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنھم کی روایات ذکر کی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کے بچوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَللّٰهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوْا عَامِلِيْنَ )) [ بخاری، الجنائز : ۱۳۸۳، ۱۳۸۴ ] ’’اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے جو وہ عمل کرنے والے تھے۔‘‘ اس کے بعد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کی کہ ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( كُلُّ مَوْلُوْدٍ يُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ فَأَبْوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ، كَمَثَلِ الْبَهِيْمَةِ تُنْتَجُ الْبَهِيْمَةَ، هَلْ تَرَی فِيْهَا جَدْعَاءَ؟ )) [ بخاری : ۱۳۸۵ ] ’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا دیتے ہیں یا اسے نصرانی بنا دیتے ہیں، یا اسے مجوسی بنا دیتے ہیں، جیسے چوپایہ چوپائے کو جنم دیتا ہے (تو مکمل اعضا والا ہوتا ہے) کیا تم ان میں کوئی کان کٹا دیکھتے ہو۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر بچہ مسلمان پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث بیان فرمائی ہے، جس میں ہے کہ جبریل اور میکائیل علیھما السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رات اپنے ساتھ لے جا کر بہت سی چیزوں کا مشاہدہ کروایا، اس حدیث میں ہے کہ ہم ایک سرسبز باغ میں پہنچے جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا، اس کی جڑ کے پاس ایک بزرگ اور بہت سے بچے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشاہدات کی حقیقت پوچھی تو فرشتوں نے تمام مشاہدات کے آخر میں سب کی حقیقت بیان کی اور اس مشاہدے کے متعلق بتایا کہ یہ بزرگ ابراہیم علیہ السلام تھے اور وہ بچے لوگوں کے بچے تھے۔ [ بخاری : ۱۳۸۶ ] امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’كِتَابُ التَّعْبِيْرِ، بَابُ تَعْبِيْرِ الرُّؤْيَا بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ [۷۰۴۷]‘‘ میں یہی حدیث زیادہ تفصیل سے بیان فرمائی ہے۔ اس میں ہے کہ فرشتوں نے بتایا کہ باغ میں جو لمبے قد کے بزرگ تھے وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور وہ بچے جو ان کے اردگرد تھے وہ ایسے بچے تھے جو فطرت پر فوت ہوئے۔ سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کچھ مسلمانوں نے پوچھا : (( يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ ! وَ أَوْلاَدُ الْمُشْرِكِيْنَ ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ أَوْلَادُ الْمُشْرِكِيْنَ )) ’’یا رسول اللہ! اور مشرکوں کے بچے بھی؟‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اور مشرکوں کے بچے بھی۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ کی اس ترتیب سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشرکوں کے بچوں کے متعلق کوئی بات نہیں بتائی گئی، آپ نے یہ بات اللہ کے علم کے سپرد فرمائی، مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کر دیا گیا تو آپ نے مسلم و مشرک تمام لوگوں کے بچوں کے جنتی ہونے کی صراحت فرما دی۔ البتہ دنیوی احکام میں مشرکوں کے بچوں کا حکم ان کے باپوں والا ہی ہو گا۔ اس لیے جہاد کے دوران حملے میں یا لونڈی و غلام بناتے وقت ان کا حکم مشرکین ہی کا ہو گا۔ ہاں، وہ کلمہ پڑھ لیں تو انھیں مسلمان سمجھا جائے گا۔ رہ گئے اہل فترت و جاہلیت، یعنی عرب کے وہ لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے فوت ہو گئے تو ان تمام کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انھیں اللہ کی طرف سے توحید کا پیغام نہیں پہنچا، بلکہ وہ اپنے آپ کو ملت ابراہیم پر قرار دیتے تھے اور وہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد اور امت تھے۔ ایک لمبی مدت گزرنے کی وجہ سے ممکن ہے دین کے تفصیلی احکام ان کو معلوم نہ رہے ہوں، تاہم اکثریت بلکہ تمام لوگوں کے بت پرستی میں مبتلا ہونے کے باوجود توحید اور دین ابراہیم کا پیغام پہنچانے والے کچھ لوگ ان میں ضرور موجود رہے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے سے پہلے بھی کچھ لوگ بتوں کی پرستش نہیں کرتے تھے، یہ لوگ ’’حنفاء‘‘ کہلاتے تھے، ان میں زید بن عمرو بن نفیل اور ورقہ بن نوفل بھی شامل ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : ((أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقِيَ زَيْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ بِأَسْفَلِ بَلْدَحٍ قَبْلَ أَنْ يَّنْزِلَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَحْيُ، فَقُدِّمَتْ إِلَي النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُفْرَةٌ فَأَبٰی أَنْ يَّأَكُلَ مِنْهَا، ثُمَّ قَالَ زَيْدٌ إِنِّيْ لَسْتُ آكُلُ مِمَّا تَذْبَحُوْنَ عَلٰی أَنْصَابِكُمْ، وَلاَ آكُلُ إِلَّا مَا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ، فَإِنَّ زَيْدَ بْنَ عَمْرٍو كَانَ يَعِيْبُ عَلٰی قُرَيْشٍ ذَبَائِحَهُمْ وَ يَقُوْلُ الشَّاةُ خَلَقَهَا اللّٰهُ وَأَنْزَلَ لَهَا مِنَ السَّمَاءِ الْمَاءِ، وَأَنْبَتَ لَهَا مِنَ الْأَرْضِ، ثُمَّ تَذْبَحُوْنَهَا عَلٰی غَيْرِ اسْمِ اللّٰهِ ؟ إِنْكَارًا لِذٰلِكَ وَ إِعْظَامًا لَّهُ )) [ بخاری، مناقب الأنصار، باب حدیث زید بن عمرو بن نفیل : ۳۸۲۶ ] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ملنے سے پہلے زید بن عمرو بن نفیل کو مقام بلدح کے نچلے حصے میں ملے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک دستر خوان پیش کیا گیا تو اس نے اس سے کھانے سے انکار کر دیا، زید نے کہا : ’’میں اس میں سے نہیں کھاتا جو تم اپنے نصب کر دہ بتوں وغیرہ پر ذبح کرتے ہو اور میں اس کے سوا نہیں کھاتا جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔‘‘ زید بن عمرو قریش پر ان کے ذبیحوں پر عیب لگاتے تھے اور کہتے تھے : ’’بھیڑ بکری جو ہے اسے اللہ نے پیدا فرمایا اور اسی نے اس کے لیے آسمان سے پانی اتارا اور زمین سے اس کے لیے پودے اگائے، پھر تم اسے اللہ کے غیر کے نام پر ذبح کرتے ہو۔‘‘ ان کے اس فعل کا انکار کرتے ہوئے اور اسے بہت بڑا گناہ قرار دیتے ہوئے یہ بات کہتے تھے۔‘‘ ورقہ بن نوفل بت پرستی سے بے زار ہو کر نصرانی ہو گئے تھے۔‘‘ [ بخاری، بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی إلٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ۲ ] اور ظاہر ہے کہ وہ موحد نصرانی بنے ہوں گے، تثلیث والے مشرک نہیں، کیونکہ پھر انھیں بت پرستی چھوڑ کر نصرانی بننے کی ضرورت نہ تھی اور اسی توحید کی وجہ سے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تسلیم کی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں : (( رَأَيْتُ زَيْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ قَائِمًا مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إِلَی الْكَعْبَةِ يَقُوْلُ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ ! وَاللّٰهِ ! مَا مِنْكُمْ عَلٰی دِيْنِ إِبْرَاهِيْمَ غَيْرِيْ )) [ بخاری، مناقب الأنصار، باب حدیث زید بن عمرو بن نفیل : ۳۸۲۸ ] میں نے زید بن عمرو بن نفیل کو دیکھا وہ کعبے کے ساتھ پیٹھ کا سہارا لے کر کھڑے کہہ رہے تھے : ’’اے قریش کی جماعت! اللہ کی قسم! تم میں سے کوئی شخص میرے سوا دین ابراہیم پر نہیں ہے۔‘‘ الغرض جب ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام سے سیکڑوں سال بعد بھی توحید پر قائم اور اس کا پیغام کھلم کھلا کعبہ میں کھڑے ہو کر دینے والے موجود تھے تو ان سے پہلے ابراہیم و اسماعیل علیھما السلام کے زمانے کے جس قدر قریب جائیں توحید والے اور اپنے آپ کو دین ابراہیم پر قائم کہنے والے یقیناً موجود رہے ہیں۔ یہ تو یمن سے آنے والے عمرو بن لحی خزاعی کا بیڑا غرق ہوا کہ اس نے کعبہ میں بت لاکر رکھ دیے، جس کے بعد قریش بھی بت پرستی میں مبتلا ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا : ﴿وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ﴾ [ فاطر : ۲۴ ] ’’اور کوئی امت نہیں مگر اس میں کوئی نہ کوئی ڈرانے والا گزرا ہے۔‘‘ یہ ڈرانے والا کوئی امتی بھی ہو سکتا ہے، جیسا کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو تقریباً ۱۴۲۱ برس گزر چکے مگر آپ کی دعوت مسلسل دنیا کے ہر خطے میں جاری ہے اور داعیان اسلام بشارت و نذارت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ زمانۂ فترت میں دو قسم کے لوگ ہو سکتے ہیں، بلکہ آج بھی یہ دونوں قسمیں موجود ہیں، ایک وہ جنھیں کسی ذریعے سے توحید کی دعوت پہنچ گئی، خواہ وہ کسی توحید پر قائم شخص کے ذریعے سے پہنچی ہو یا اس کے مخالف کے ذریعے سے، جیسا کہ ابوسفیان نے اپنے زمانۂ کفر میں ہرقل کے سامنے دین اسلام کا بہترین خلاصہ پیش کیا تھا، پھر انھوں نے نہ توجہ سے سنا، نہ سوچنے کی زحمت کی، نہ اسے تسلیم کیا تو ان کے جہنمی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ انھیں صرف اہل فترت ہونے کی وجہ سے جنتی نہیں کہا جا سکتا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿كُلَّمَا اُلْقِيَ فِيْهَا فَوْجٌ سَاَلَهُمْ خَزَنَتُهَا اَلَمْ يَاْتِكُمْ نَذِيْرٌ (8) قَالُوْا بَلٰى قَدْ جَآءَنَا نَذِيْرٌ فَكَذَّبْنَا وَ قُلْنَا مَا نَزَّلَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ كَبِيْرٍ (9) وَ قَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ (10) فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْۢبِهِمْ فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِيْرِ﴾ [ الملک : ۸ تا ۱۱ ] ’’جب بھی اس (جہنم) میں کوئی گروہ ڈالا جائے گا تو اس کے نگران ان سے پو چھیں گے کیا تمھارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں۔ آیا؟ وہ کہیں گے کیوں نہیں؟ یقیناً ہمارے پاس ڈرانے والا آیا تو ہم نے جھٹلا دیا اور ہم نے کہا اللہ نے کوئی چیز نہیں اتاری، تم تو ایک بڑی گمراہی میں ہی پڑے ہوئے ہو۔ اور وہ کہیں گے اگر ہم سنتے ہوتے یا سمجھتے ہوتے تو بھڑکتی ہوئی آگ والوںمیں سے نہ ہوتے۔ پس وہ اپنے گناہ کا اقرار کریں گے، سو دوری ہے بھڑکتی ہوئی آگ والوں کے لیے۔‘‘ یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ يَفْتَخِرُوْنَ بِآبَائِهِمُ الَّذِيْنَ مَاتُوْا، إِنَّمَا هُمْ فَحْمُ جَهَنَّمَ، أَوْ لَيَكُوْنُنَّ أَهْوَنَ عَلَی اللّٰهِ مِنَ الْجُعَلِ الَّذِيْ يُدَهْدِهُ الْخِرَاءَ بِأَنْفِهِ )) [ ترمذي، المناقب، باب في فضل الشام والیمن : ۳۹۵۵، حسنہ الألباني ] ’’کچھ لوگ جو اپنے ان آباء پر فخر کرتے ہیں جو فوت ہو چکے، جو محض جہنم کے کوئلے ہیں، ان پر فخر کرنے سے باز آ جائیں گے ورنہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پاخانے کے اس کیڑے سے بھی ذلیل ہوں گے جو اپنی ناک کے ساتھ پاخانے کو دھکیلتا جاتا ہے۔‘‘ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانۂ جاہلیت میں فوت ہونے والوں کو جہنم کے کوئلے قرار دیا۔ مزید تفصیل سورۂ توبہ کی آیت (۱۱۳) کی تشریح میں تفسیر کی کسی بھی کتاب سے دیکھ لیں۔ اب اہل فترت کے صرف وہ لوگ رہ گئے جنھیں واقعی دعوت نہیں پہنچی تو یہ صرف اہل فترت ہی کے ساتھ خاص نہیں، اب بھی اگر دنیا کے کسی خطے میں واقعی کوئی ایسا شخص موجود ہے جسے بالکل دعوت نہیں پہنچی تو اس آیت ’’ وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا ‘‘ کے تحت حجت پوری کیے بغیر اسے عذاب نہیں ہو گا، خواہ وہ حجت قیامت کے دن پوری کی جائے۔ جہاں تک میں نے مطالعہ کیا ہے ان لوگوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آنے والی احادیث میں سے سب سے صحیح حدیث وہ ہے جو اسود بن سریع اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’چار آدمی قیامت کے دن اپنی حجت (دلیل) پیش کریں گے، ایک بہرا آدمی جو کچھ نہیں سنتا، ایک احمق آدمی، ایک حد سے بوڑھا اور ایک وہ آدمی جو فترت میں فوت ہوا۔ جو بہرا ہے وہ کہے گا، اے میرے رب! اسلام آیا تو مجھے کچھ سنائی نہ دیتا تھا، احمق کہے گا، اے میرے رب! اسلام آیا اور میں کچھ عقل نہ رکھتا تھا اور بچے مجھے مینگنیاں مارتے تھے، حد سے بوڑھا کہے گا، اے میرے رب! اسلام آیا اور میں کچھ سمجھتا نہ تھا اور جو فترت میں فوت ہوا وہ کہے گا، اے میرے رب! میرے پاس تیرا کوئی پیغام لانے والا نہیں آیا۔ تو اللہ تعالیٰ ان سے ان کے پختہ عہد لے گا کہ وہ جو کہے گا اس کی اطاعت کریں گے؟ تو ان کی طرف پیغام بھیجا جائے گا کہ آگ میں داخل ہو جاؤ، تو جو داخل ہو جائے گا وہ اس پر ٹھنڈک اور سلامتی بن جائے گی اور جو داخل نہیں ہو گا اسے گھسیٹ کر اس میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘ [ مسند أحمد :4؍24، ح : ۱۶۳۰۷۔ ابن حبان : ۷۳۵۷ ] صحیح الجامع (۸۸۱) میں شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح فرمایا ہے، ابن کثیر نے فرمایا کہ اسے اسحاق بن راہویہ نے معاویہ بن ہشام سے ایسے ہی روایت کیا اور بیہقی نے اسے کتاب الاعتقاد میں ’’حنبل عن علی بن عبد اللہ‘‘ کی سند سے روایت کیا اور فرمایا یہ اسناد صحیح ہے۔ محترم زبیر علی زئی صاحب نے اردو تفسیر ابن کثیر کی تخریج میں اس کی ایک ہم معنی حدیث کو جو اہل جاہلیت کے متعلق ہے، حاکم (۴؍۴۴۹، ۴۵۰) کے حوالے سے حسن لکھا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ اگر پیغام پہنچ جاتا تو کوئی شخص کیا کرتا، مگر ان چاروں کا عذر بھی باقی نہیں رہنے دیا جائے گا، بلکہ قیامت کے دن ان کے امتحان کے بعد اس کے نتیجے کے مطابق ان سے سلوک ہو گا، البتہ بچوں کے امتحان کی کوئی روایت صحیح نہیں۔ [ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ وَعِلْمُہُ أَتَمُّ ]