سورة الإسراء - آیت 9

إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” بلاشبہ یہ قرآن اس راستے کی ہدایت دیتا ہے جو سب سے سیدھا ہے اور ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں، بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔“ (٩) ”

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ هِيَ اَقْوَمُ ....: یعنی یہ قرآن تمام دینی اور دنیوی معاملات میں سب سے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھنے کا وہ طریقہ سکھایا گیا ہے جس سے اچھا کوئی طریقہ نہیں، مگر ترک دنیا اور رہبانیت اختیار کرنے اور انسانی فطرت کے تقاضوں کو پامال کرنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے، بلکہ اس کے بجائے دنیا میں باعزت اور غالب ہو کر رہنے کا اور انسان کے فطری تقاضوں اور دنیا کی آسائشوں سے بہرہ ور ہونے کا بھی ایسا عمدہ طریقہ سکھایا گیا ہے جو ہر قسم کی زیادتی، سرکشی اور ہوس پرستی سے پاک ہے اور دنیا میں ہر مسلم اور غیر مسلم کے لیے امن و سلامتی کا ضامن ہے ۔ ہاں جو لوگ اس پر ایمان لے آئیں اور اس کے مطابق عمل صالح کریں انھیں وہ اجر کبیر کی بھی بشارت دیتا ہے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہ لائیں انھیں اس بات سے بھی آگاہ کرتا ہے کہ دنیا میں وہ بظاہر کتنے ہی خوش حال اور صاحب مال و اولاد ہوں دنیا میں بھی ان کے لیے عذاب ہے (دیکھیے توبہ : ۵۵۔ طٰہٰ : ۱۲۴ تا ۱۲۷) اور آخرت میں بھی ان کے لیے عذاب الیم ہے جو دنیا کے عذاب سے کہیں زیادہ سخت ہے، جیسا کہ سورۂ طٰہٰ کی مذکورہ آیات کے آخر میں فرمایا : ﴿وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَشَدُّ وَ اَبْقٰى ﴾’’اور یقیناً آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور زیادہ باقی رہنے والا ہے۔‘‘ مسلمانوں کے لیے ان دو آیتوں میں دو بشارتیں ہیں، ایک ان کے لیے اجر کبیر کی، دوسری ان کے دشمنوں کا عذاب الیم میں مبتلا ہونا بھی ان کے لیے خوشی کی خبر ہے۔