سورة النحل - آیت 66

وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِبِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور بلاشبہ تمہارے لیے چوپاؤں میں بڑی عبرت ہے، ہم ان کے پیٹوں میں سے گوبر اور خون کے درمیان سے تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیں، جو پینے والوں کے لیے مزیدار ہے۔“ (٦٦)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً .....:’’ الْاَنْعَامِ ‘‘ لفظاً مفرد ہے، افعال کا وزن یہاں جمع کے لیے نہیں بلکہ یہ اسم جمع ہے، جیسے ’’رَهْطٌ‘‘، ’’قَوْمٌ‘‘ اور ’’بَقْرٌ‘‘ وغیرہ۔ یہاں لفظ کی رعایت سے اس کے لیے واحد مذکر کی ضمیر ’’بُطُوْنِهٖ ‘‘ لائی گئی ہے، سورۂ مومنون(۲۱) میں ’’ نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِهَا ‘‘ جمع کے معنی کی رعایت سے مؤنث کی ضمیر لائی گئی ہے۔ ’’الْاَنْعَامِ‘‘ اصل میں اونٹوں کو کہتے ہیں، کیوں کہ وہ بہت بڑی نعمت ہیں، اس کے ساتھ گائے اور بھیڑ بکری کو بھی ’’ الْاَنْعَامِ ‘‘ کہہ لیتے ہیں۔ سورۂ انعام (۱۴۳، ۱۴۴) میں ان کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ ’’ لَعِبْرَةً ‘‘ میں تنوین تعظیم کی ہے، بہت بڑی عبرت، معنی ہے عبور کرنا، ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنا، ایک چیز سے ایسی نصیحت حاصل کرنا جو دوسری جگہ کام دے۔ ’’نُسْقِيْكُمْ ‘‘ قرآن میں ’’سَقٰي‘‘ اور ’’أَسْقٰي‘‘ دونوں لفظ آئے ہیں، اکثر لوگ ان کا ایک ہی معنی کر دیتے ہیں، جبکہ ان میں فرق ہے، ’’سَقٰي يَسْقِيْ‘‘ پلانا اور ’’أَسْقٰي يُسْقِيْ‘‘ پلانے کے لیے دینا، یعنی ہم تمھیں پلانے کے لیے دیتے ہیں، خود پی لو یا کسی کو پلا دو۔ ’’فَرْثٍ ‘‘ چوپاؤں کی ہضم شدہ خوراک جب تک اوجھڑی میں رہے، جب باہر نکلے تو اسے ’’رَوْثٌ‘‘ کہتے ہیں۔ ’’ لَبَنًا خَالِصًا ‘‘ گوبر کی بو اور رنگ اور خون کی سرخی دونوں سے خالص، سفید اور لذیذ دودھ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی کتنی عظیم نشانی ہے، کوئی ہے جو گوبر اور خون میں سے خالص دودھ کشید کر سکے؟ ’’سَآىِٕغًا لِّلشّٰرِبِيْنَ ‘‘ ’’سَاغَ يَسُوْغُ‘‘ جو آسانی سے حلق میں اتر جائے۔ دودھ ایک مکمل غذا ہے، اس لیے بچے کی مکمل پرورش کے لیے دودھ ہی کافی ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ پھر میرے پاس شراب کا ایک برتن اور دودھ کا ایک برتن اور شہد کا ایک برتن لایا گیا تو میں نے دودھ کو پسند کیا تو جبریل علیہ السلام نے فرمایا، یہ فطرت ہے، آپ بھی اس پر ہیں اور آپ کی امت بھی۔ [ بخاری، الأشربۃ، باب شرب اللبن.....: ۵۶۱۰، عن أنس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ ] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((ثَلَاثٌ لَا تُرَدُّ الْوَسَائِدُ وَالدُّهْنُ وَاللَّبَنُ )) [ ترمذی الأدب، باب ما جاء في کراھیۃ رد الطیب : ۲۷۹۰، عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنھما۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ۲ ؍۱۱۸، ح : ۶۱۹ ] ’’تین چیزیں رد نہیں کی جاتیں، گاؤ تکیے، تیل (خوشبو) اور دودھ۔‘‘ 2۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اکیلے معبود ہونے اور مخلوق کو دوبارہ زندہ کرنے کی دلیل کے لیے چوپاؤں میں سے ایک چیز کا ذکر فرمایا کہ دیکھیے وہ گھاس اور چارا جو حیوان کھاتے ہیں وہ پانی اور مٹی سے پیدا ہوتا ہے۔ مٹی اور پانی کو گھاس اور چارے میں بدلنا، پھر جانور کے پیٹ میں اسے خون سے بدلنا، پھر اسے دودھ میں بدلنا کس قدر باعث عبرت ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری طرح قادر ہے کہ تمام چیزوں کو ایک حالت سے دوسری جس حالت میں چاہے بدل دے۔