هُوَ الَّذِي أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً ۖ لَّكُم مِّنْهُ شَرَابٌ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ
” وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا، تمہارے لیے اس سے پینا ہے اور اسی سے پودے اگتے ہیں۔ جن میں تم چراتے ہو۔“ (١٠) ”
1۔ هُوَ الَّذِيْ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً: ’’ السَّمَآءِ ‘‘ کا لفظی معنی بلند چیز ہے، کیونکہ یہ ’’سُمُوٌّ‘‘ سے مشتق ہے، جس کا معنی بلندی ہے، اس لیے یہ لفظ بادل، بارش، چھت (دیکھیے انبیاء : ۳۲) اور آسمان سب کے لیے بولا جاتا ہے اور ہر جگہ قرینے سے اس کا معنی متعین ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدت و قدرت کے دلائل میں حیوانات کے بعد اب پانی اور نباتات کا ذکر فرمایا، کیونکہ انسان کی غذا لحمیات، نشاستے، شکر وغیرہ زمین سے پیدا ہونے والی بے شمار چیزوں اور پانی سے مکمل ہوتی ہے۔ زمین کا ستر (۷۰) فیصد حصہ نہایت تلخ سمندر ہے، جس کا پانی انسان کے پینے کے لائق نہیں، مگر زمین اور سمندر کو تعفن سے محفوظ رکھنے کے لیے اس کا نمکین ہونا نہایت ضروری ہے، ورنہ بدبو اور تعفن سے نہ سمندر میں کوئی چیز زندہ رہتی، نہ زمین پر۔ انھیں بخارات کی صورت میں اڑا کر بادلوں سے میٹھا پانی برسانے والی ایک ہی ذات پاک ہے، اگر وہ پانی نہ برساتا تو انسان، حیوان، نباتات سب کا نام و نشان مٹ جاتا اور اگر وہ سمندر کی طرح شدید کڑوا ہی برسا دیتا تو پھر بھی خشکی کی ہر زندہ چیز انسان، حیوان اور نباتات معدوم ہو جاتے، فرمایا : ﴿ لَوْ نَشَآءُ جَعَلْنٰهُ اُجَاجًا فَلَوْ لَا تَشْكُرُوْنَ ﴾ [ الواقعۃ : ۷۰ ] ’’اگرہم چاہیں تو اسے سخت نمکین بنا دیں، پھر تم شکر ادا کیوں نہیں کرتے؟‘‘ 2۔ لَكُمْ مِّنْهُ شَرَابٌ....: اسی پانی میں سے کچھ حصہ تمھارے پینے کے کام آتا ہے اور کچھ پودے اگانے کے، جن میں تم اپنے جانور چراتے ہو۔ یہ نہ ہو تو نہ تم رہو، نہ تمھارے پودے اور نہ ان میں چرنے والے جانور۔ ’’ شَجَرٌ ‘‘ اگرچہ تنے والے درخت کو کہتے ہیں مگر یہاں زمین سے اگنے والی ہر چیز مراد ہے، دلیل اس کی ’’ فِيْهِ تُسِيْمُوْنَ ‘‘ (اس میں تم چراتے ہو) ہے۔‘‘