سورة البقرة - آیت 11

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ یہاں منافقین کے دو اوصاف بیان ہوئے ہیں ، فساد یعنی زمین میں بگاڑ پیدا کرنا۔ اس میں اللہ کی ہر نافرمانی شامل ہے، کیونکہ اس سے زمین میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے، فرمایا : ﴿ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ ﴾ [ الروم : ۴۱ ] ’’خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہو گیا، اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا۔‘‘ دوسرا وصف بگاڑ پیدا کرنے کو عین اصلاح قرار دینا۔ یہ لوگ دل میں کفر رکھنے کی وجہ سے کفار سے دوستی رکھتے تھے، مسلمانوں کے راز انھیں بتاتے اور اسلام کے عقائد و احکام پر اعتراض کرتے تھے اور منع کرنے پر اپنے اس عملِ بد کو اصلاح کا نام دیتے تھے۔