وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْهَارًا ۖ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
” اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور ندیاں بنائیں اور اس نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے، وہ رات کو دن پر اوڑھا دیتا ہے، بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے ضرور بہت سی نشانیاں ہیں جو غوروفکر کرتے ہیں۔“ (٣)
1۔ وَ هُوَ الَّذِيْ مَدَّ الْاَرْضَ.....: ’’ مَدَّ ‘‘ کا معنی پھیلانا ہے۔ ’’ رَوَاسِيَ ‘‘ ’’رَاسِيَةٌ‘‘ کی جمع ہے، ’’رَسَا يَرْسُوْ‘‘ کا معنی زمین میں گڑا ہوا ہونا ہے، لفظی معنی زمین میں گڑے ہوئے، مراد پہاڑ ہیں۔ پہلے اوپر کے جہان کا تذکرہ فرمایا، پھر زمین، آسمان، سورج، چاند وغیرہ کا، اب نیچے کے جہان میں اللہ تعالیٰ کی چند قدرتوں کا ذکر ہے کہ زمین ایک کرہ ہونے کے باوجود اتنی وسیع بنائی کہ طول و عرض میں آدمی کی نگاہ اس کی انتہا کو نہیں پاتی، انسان اور حیوان کسی تکلیف کے بغیر اس پر چلتے پھرتے ہیں، انسان عظیم الشان عمارتیں بناتے ہیں۔ زمین کا توازن قائم رکھنے کے لیے اور ہر وقت زلزلے کی کیفیت سے محفوظ رکھنے کے لیے اس میں بہت نیچے تک گڑے ہوئے اور بہت اوپر تک اٹھے ہوئے پہاڑ بنا دیے اور تمھاری زندگی کی بقا کے لیے دریا اور ندی نالے بنا دیے۔ ندی نالوں کا ذکر پہاڑوں کے ساتھ فرمایا، کیونکہ دریا عموماً پہاڑوں ہی سے نکلتے ہیں۔ 2۔ وَ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ ....: اس جملے میں ایک ایسی حقیقت بیان فرمائی ہے جس کا پوری طرح انکشاف کچھ مدت پہلے ہی ہوا ہے۔ پہلے لوگوں کو صرف چند درختوں کے جوڑا یعنی نر اور مادہ ہونے ہی کا علم تھا جن کے نر درخت الگ اور مادہ الگ ہوتے ہیں، مثلاً کھجور اور پپیتا وغیرہ۔ پھر ثابت ہوا کہ ہر درخت ہی کا پھل نر اور مادہ پھولوں کا بور ملنے سے وجود میں آتا ہے، یعنی ہر پھل میں جوڑا موجود ہے، پھر نر و مادہ دونوں پھول بعض اوقات ایک ہی پودے میں موجود ہوتے ہیں، بلکہ بعض اوقات ایک درخت کے ایک ہی پھول میں نر و مادہ دونوں حصے پائے جاتے ہیں۔ کتنی عظیم قدرتوں کا مالک ہے وہ جس کی صرف ایک تخلیق کی ایک حقیقت جو خود اس نے سیکڑوں برس پہلے بیان فرما دی تھی، اب کہیں انسان اسے کسی حد تک پا سکے ہیں۔ عموماً قدیم مفسرین نے اس کا معنی ہر پھل میں سے دو قسمیں کیا ہے، مثلاً میٹھا اور کھٹا، گرم اور سرد، چھوٹا اور بڑا، سیاہ اور سفید وغیرہ، یہ معنی بھی درست ہے۔ 3۔ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ: یہ اس کی قدرت کا اور اپنے بندوں پر رحمت کے ایک اور نمونے کا بیان ہے۔ ’’غَشِيَ يَغْشٰي‘‘ (ع) کا معنی ڈھانپنا ہے۔ ’’ يُغْشِي ‘‘ باب افعال ’’ أَغْشَي يُغْشِيْ‘‘ سے ہے، معنی ہے کسی چیز کو دوسری چیز کے لیے ڈھانپنے والی بنا دینا۔ رات کو دن پر اڑھا دیتا ہے تو اندھیرا چھا جاتا ہے، اگلی بات خود سمجھ میں آ رہی ہے، اس لیے حذف کر دی، یعنی دن کو رات پر اڑھا دیتا ہے تو روشنی ہو جاتی ہے، دونوں ایک دوسرے کی جگہ آتے رہتے ہیں۔ دونوں کے فوائد کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ قصص (۷۱ تا ۷۳)۔ 4۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ ....: یعنی جو لوگ غورو فکر کرتے ہیں ان کے لیے ان چیزوں میں بہت سے دلائل ہیں کہ وہ اللہ کہ مکان و زمان کی ہر حرکت و سکون اور ہر تبدیلی مکمل طور پر اس کے ہاتھ میں ہے، وہ انسان کو بھی دوبارہ پیدا کر سکتا ہے۔ موضح میں ہے : ’’رنگا رنگ چیزیں بنانا نشان ہے کہ اپنی خوشی سے بنایا، اگر ہر چیز خاصیت سے ہوتی تو ایک سی ہوتی۔‘‘ رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ قرآن میں جہاں عالم سفلی، یعنی زمین کے دلائل کا ذکر ہے اس کے آخر میں : ﴿ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۠ ﴾ یا اس کا ہم معنی جملہ لایا گیا ہے، جس سے اشارہ ہے کہ ان چیزوں پر غور وفکر سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ اختلاف طبعی اسباب کے تحت نہیں (یعنی خود بخود ایسا نہیں ہو رہا بلکہ ایک کرنے والا سب کچھ کر رہا ہے)۔