سورة یوسف - آیت 59

وَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِي بِأَخٍ لَّكُم مِّنْ أَبِيكُمْ ۚ أَلَا تَرَوْنَ أَنِّي أُوفِي الْكَيْلَ وَأَنَا خَيْرُ الْمُنزِلِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

’ اور جب اس نے ان کا سامان تیار کروا دیا تو کہا میرے پاس اپنے بھائی کو لے کر آنا جو تمہارے باپ کی طرف سے ہے، کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں ماپ پورا دیتا ہوں اور میں بہترین مہمان نواز ہوں۔“ (٥٩) ”

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ.....: ’’جَهَازٌ‘‘ وہ سامان جس کی مسافر کو ضرورت ہوتی ہے۔ یوسف علیہ السلام نے کہا : ﴿ ائْتُوْنِيْ بِاَخٍ لَّكُمْ ﴾ یہ نہیں کہا ’’بِأَخِيْكُمْ ‘‘ کہ اپنے بھائی کو جو تمھارے باپ سے ہے لے کر آنا، بلکہ ’’بِاَخٍ لَّكُمْ ‘‘ کہا، یعنی ’’اَخٌ‘‘ کو نکرہ رکھا، تاکہ بھائیوں کے سامنے یہی ظاہر ہو کہ عزیز مصر اس بھائی کو نہیں جانتا ۔ یہ سب سے چھوٹے اور یوسف علیہ السلام کے سگے بھائی تھے۔ ان کا نام بنیامین مشہور ہے جس کی کوئی پختہ دلیل نہیں، جیسا کہ عزیز مصر کا نام ’’فوطیفار‘‘، اس کی بیوی کے نام ’’زلیخا‘‘ یا ’’راعیل‘‘، بادشاہ کا نام ’’ریان بن ولید‘‘ اور یوسف علیہ السلام کے دوسرے بھائیوں کے ناموں کی دلیل اسرائیلی روایات کے سوا کچھ نہیں، جن پر اعتبار ممکن نہیں۔ یوسف علیہ السلام کی اس فرمائش سے معلوم ہوتا ہے کہ خود بھائیوں نے یوسف علیہ السلام کو اپنے خاندان کا تعارف کرواتے ہوئے اس بھائی کا ذکر کیا۔ اَلَا تَرَوْنَ.....: چھوٹے بھائی کو بلوانے کے لیے یوسف علیہ السلام نے اپنی تجارتی ایمان داری ’’اُوْفِي الْكَيْلَ ‘‘ اور بہترین مہمان نوازی کا ذکر بھی کیا اور اگلی آیت میں دھمکی بھی دی کہ اس بھائی کو ساتھ نہ لائے تو نہ غلہ ملے گا اور نہ مجھ سے ملاقات کی امید رکھنا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یوسف علیہ السلام نے غلہ لینے کے لیے آنے والے تمام لوگوں کے لیے مہمان نوازی کا، ان کے ٹھہرنے اور کھانے پینے کا بہترین انتظام کر رکھا تھا اور بھائی تو پھر بھائی تھے۔