سورة یوسف - آیت 54

وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِي ۖ فَلَمَّا كَلَّمَهُ قَالَ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ کہ میں اسے اپنے لیے خاص کرلوں، پھر جب اس نے اس سے بات چیت کی تو کہا بلا شبہ تو آج ہمارے ہاں صاحب اقتدار اور امانتدار ہے۔“ (٥٤) ”

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِيْ : یہاں سے یوسف علیہ السلام کی زندگی کا ایک اور دور شروع ہوتا ہے، جب غلامی و قید ختم ہوئی اور آزادی اور حکومت و سلطنت عطا ہوئی۔ ’’ اَسْتَخْلِصْهُ ‘‘ یہاں بادشاہ ’’ اُخْلِصْهُ‘‘ بھی کہہ سکتا تھا، جیسا کہ ﴿ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ ﴾ [ یوسف : ۲۴ ] میں باب افعال استعمال ہوا ہے۔ ’’ اَسْتَخْلِصْهُ ‘‘ میں سین اور تاء مبالغہ کے لیے ہیں کہ ’’میں اس کو زیادہ سے زیادہ اپنے لیے خاص کر لوں۔‘‘ بادشاہ نے جب یوسف علیہ السلام سے اپنے خواب کی صحیح تعبیر سنی، پھر بلانے کے باوجود کئی سال بے گناہ قید رہ کر بھی اپنی بے گناہی ثابت ہونے سے پہلے قید خانے سے نکلنے سے انکار دیکھا، پھر تمام متعلقہ خواتین حتیٰ کہ عزیز کی بیوی سے ان کی پاک دامنی اور بے گناہی کی تصدیق سنی تو ان کی شخصیت کا اتنا مشتاق ہوا کہ اس نے حکم دیا کہ اسے میرے پاس لاؤ، میں اسے اپنے لیے خاص کر لوں گا۔ پھر جب یوسف علیہ السلام نے بنفس نفیس اس سے گفتگو کی تو بادشاہ نے ان کے علم کی وسعت، اخلاق کی خوبی اور دوسرے اوصافِ حسنہ کا عین الیقین ہونے کے بعد کہا کہ آج سے تم ہمارے ہاں مکین و امین، یعنی صاحب اقتدار اور امانت دار ہو۔ ’’ مَكِيْنٌ ‘‘ اس ’’مَكَانَةٌ‘‘ (مرتبے) والے کو کہتے ہیں جو صرف ایک یا چند ایک کے سوا کسی کو حاصل نہ ہو۔ قرآن مجید میں اس کا استعمال دیکھیے، جب وحی کے سلسلے میں جبریل علیہ السلام کا ذکر آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ (19) ذِيْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِيْنٍ (20) مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍ ﴾ [ التکویر : ۱۹ تا ۲۱ ] ’’بے شک یہ یقیناً ایک ایسے پیغام پہنچانے والے کا قول ہے جو بہت معزز ہے۔ بڑی قوت والا ہے، عرش والے کے ہاں بہت مرتبے والا ہے۔ وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے، امانت دار ہے۔‘‘ اور آپ جانتے ہیں کہ فرشتوں میں جبریل علیہ السلام کو کیا مرتبہ حاصل ہے کہ بنی آدم کے تمام انبیاء و رسل کی طر ف اللہ کی جانب سے انھیں رسول چنا گیا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی بہت بڑی نشانیوں میں سے ایک قرار دیا، فرمایا : ﴿ لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى ﴾ [ النجم : ۱۸ ] ’’بلاشبہ یقیناً اس نے اپنے رب کی بعض بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔‘‘ ان سے بڑھ کر اللہ کا قرب رکھنے والا کوئی فرشتہ ہمیں معلوم نہیں۔ ’’ اَمِيْنٌ ‘‘ یعنی اپنی ذات، مملکت کے معاملات و اسرار اور سب لوگوں کے جان و مال اور ان کے درمیان عدل و انصاف میں تم ہمارے ہاں مکمل قابل اعتماد ہو، تمھاری امانت پر ہمیں پورا بھروسا ہے۔