وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ
اور وہ اس کی قمیص پر ایک جھوٹا خون لگا لائے اس نے کہا بلکہ تمھارے لیے تمھارے دلوں نے ایک بات بنالی ہے۔ بس صبر ہی بہتر ہے اور اللہ ہی ہے جس سے اس پر مدد مانگی جاتی ہے جو تم بیان کرتے ہو۔ (١٨)
1۔ وَ جَآءُوْ عَلٰى قَمِيْصِهٖ بِدَمٍ كَذِبٍ.....: یہ اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کی ایک اور چال تھی کہ وہ یوسف علیہ السلام کی قمیص پر ایسا خون لگا کر لائے جو ’’ كَذِبٍ ‘‘ تھا، جس کا معنی جھوٹ ہے یا یہ بمعنی ’’مَكْذُوْبٌ‘‘ ہے، جیسے ’’خَلْقٌ‘‘ بمعنی ’’مَخْلُوْقٌ‘‘ یعنی جھوٹا بنایا ہوا، یا مصدر مبالغے کے لیے ہے کہ وہ خون سراسر جھوٹ تھا، یوسف علیہ السلام کا ہر گز نہ تھا، بلکہ وہ بھیڑ بکری یا جنگل سے شکار کیا ہوا کوئی جانور ذبح کرکے اس کا خون لگا کر لے آئے تھے۔ والد ساری حقیقت سمجھ گئے، کیونکہ ان کی گھڑی ہوئی کہانی خود ہی اپنی حقیقت بتا رہی تھی اور فرمایا : ’’ بَلْ ‘‘ (بلکہ) یعنی جو کچھ تم کہہ رہے ہو سب جھوٹ ہے، بھیڑیے نے یوسف کو ہرگز نہیں کھایا، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ تمھارے دلوں نے تمھارے لیے کوئی بات خوشنما بنا دی جو تم کر گزرے ہو۔ اب وہ چونکہ کئی چیزیں ہو سکتی تھیں، اس لیے کسی کی تعیین نہیں فرمائی اور وہ یوسف کو کہیں پھینک آنا، اسے کسی جگہ لے جا کر بیچ آنا، اسے کہیں چھپا دینا وغیرہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ مرنے کا یقین ہو جائے تو صبر آ جاتا ہے مگر جب خبر ہی نہ ہو کہ بیٹا اس وقت کہاں ہے؟ کس حال میں ہے؟ تو یہ بہت ہی بڑی آزمائش اور ہر وقت دل میں سلگتی رہنے والی چنگاری ہوا کرتی ہے۔ ادھر خواب کے مطابق ابھی یوسف علیہ السلام پر اتمام نعمت ہونا تھا اور ’’ تَاْوِيْلَ الْاَحَادِيْثِ ‘‘ کی تعلیم بھی باقی تھی۔ سو کس طرح مان لیتے کہ اسے بھیڑیا کھا گیا۔ 2۔ اہلِ علم نے لکھا ہے کہ اس سورت میں یوسف علیہ السلام کی قمیص کا تین دفعہ ذکر ہے اور ہر دفعہ اس کا انوکھا ہی اثر ہے۔ ایک تو یہ خون آلود قمیص تھی جس کے نتیجے میں یعقوب علیہ السلام کی بینائی ختم ہو گئی، دوسرا یوسف علیہ السلام کو تہمتِ دست درازی سے ان کی قمیص دیکھ کر بری قرار دیا گیا اور تیسرا یوسف علیہ السلام کی قمیص کی خوشبو آنا اور یعقوب علیہ السلام پر اسے ڈالنے سے ان کی بینائی کا واپس آنا۔ سبحان اللہ! اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی کمال نشانیاں ہیں۔ 3۔ تفسیر ’’التحرير والتنوير‘‘ کے مصنف ابن عاشور لکھتے ہیں : ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے قمیص کو خون آلود کرنے کی جعل سازی میں اور اسے چیر پھاڑ کر ایسی قمیص کی صورت میں پیش کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہو گی جس کے پہننے والے کو بھیڑیے نے کھا لیا ہو۔ خصوصاً اس لیے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ سمجھ دار تھے کہ اتنی سی بات بھی ان میں سے کسی کے ذہن میں نہ آئی ہو، جب کہ وہ دس جوان تھے۔ سو بعض اہل تفسیر نے جو لکھا ہے کہ یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ میں نے آج کی طرح کا کوئی بھیڑیا نہیں دیکھا جو اس بھیڑیے سے زیادہ حلیم (بردبار) ہو کہ میرے بیٹے کو کھا گیا اور اس کی قمیص نہیں پھاڑی، تو یہ قصہ گوئی کی ایک ظرافت ہے۔‘‘ اگر قمیص کے سالم رہنے کی بات قرآن و حدیث یا کسی صحیح ذریعے سے آئی ہوتی تو میرے خیال کے مطابق ابن عاشور رحمہ اللہ اتنے واضح الفاظ میں اسے قصہ گو حضرات کی کارستانی قرار نہ دیتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسا ہونا ممکن نہیں، بالکل ممکن ہے اور جرم یقیناً اپنے نشان چھوڑ جاتا ہے مگر بات ثابت تو ہونی چاہیے۔ یہاں ان کے جھوٹے ہونے کے اور دلائل ہی میں کچھ کمی نہ تھی کہ ہم قمیص کا سالم رہنا کسی صحیح ذریعۂ خبر کے بغیر ہی تسلیم کر لیں۔ 4۔ فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ: جملہ فعلیہ’’ أَصْبِرُ صَبْرًا جَمِيْلاً ‘‘ (یعنی اب میں صبر جمیل اختیار کروں گا) کے بجائے جملہ اسمیہ ارشاد فرمایا : ’’فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ ‘‘ کیونکہ اس میں دوام ہوتا ہے۔ گویا اس میں مبتدا یا خبر محذوف ہے، یعنی ’’ فَأَمْرِيْ صَبْرٌ جَمِيْلٌ‘‘ یا ’’ فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ اَمْرِيْ‘‘ یعنی اب میرا کام صبر جمیل ہے۔ کسی بھی چیز کا جمال یہ ہے کہ وہ اپنے جیسی دوسری چیزوں سے بہتر اور خوبصورت ہو۔ چنانچہ صبر بھی دو طرح کا ہوتا ہے، ایک صبر جمیل، جس میں حسن ہو اور دوسرا غیر جمیل جو حسن سے خالی ہو۔ پہلا وہ جس کے ساتھ جزع فزع اور واویلا وغیرہ نہ ہو بلکہ اللہ کی تقدیر پر صبر کیا جائے۔ دوسرا وہ جو یہ سب کچھ کرنے کے بعد ہو اور جو ہر ایک کو آخر کرنا ہی پڑتا ہے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے ایک بچے پر رو رہی تھی۔ (عبد الصمد کی روایت میں ہے کہ وہ ایک قبر کے پاس رو رہی تھی) تو آپ نے اس سے کہا : (( اِتَّقِي اللّٰهَ وَاصْبِرِيْ، فَقَالَتْ وَمَا تُبَالِيْ بِمُصِيْبَتِيْ ؟ فَلَمَّا ذَهَبَ، قِيْلَ لَهَا إِنَّهُ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَهَا مِثْلُ الْمَوْتِ، فَأَتَتْ بَابَهُ، فَلَمْ تَجِدْ عَلٰی بَابِهِ بَوَّابِيْنَ فَقَالَتْ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! لَمْ أَعْرِفْكَ، فَقَالَ إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ أَوَّلِ صَدْمَةٍ)) [ مسلم، الجنائز، باب الصبر علٰی المصیبۃ عند الصدمۃ الأولی :15؍926] ’’اللہ سے ڈر اور صبر کر۔‘‘ اس نے کہا : ’’آپ کو میری مصیبت کی کیا پروا ہے؟‘‘ جب آپ چلے گئے تو اسے بتایا گیا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، تو اس کی حالت تو موت جیسی ہو گئی۔ وہ آپ کے دروازے پر آئی تو اس نے آپ کے دروازے پر کوئی دربان نہیں دیکھے۔ کہنے لگی: ’’یا رسول اللہ! میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔‘‘ آپ نے فرمایا : ’’اصل صبر تو صرف پہلی چوٹ کے وقت ہوتا ہے۔‘‘ 5۔ وَ اللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوْنَ : یہاں ’’الْمُسْتَعَانُ ‘‘ خبر پر الف لام کی وجہ سے حصر کا معنی پیدا ہو گیا، یعنی صرف اللہ ہے یا اللہ ہی ہے جس سے مدد مانگی جاتی ہے اور اللہ سے مدد مانگنے کا طریقہ بھی اس نے خود ہی سکھایا، جس پر یعقوب علیہ السلام نے عمل کیا، فرمایا : ﴿ وَ اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ ﴾ [ البقرۃ : ۴۵ ] ’’اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو۔‘‘ 6۔ ہمارے جو بھائی کہتے ہیں کہ فلاں حضرت صاحب کی نظر لوح محفوظ پر ہے اور فلاں صاحب کے دل کا آئینہ انھیں کل عالم کی خبر دیتا ہے، وہ غور فرمائیں کہ چند میل کے فاصلے پر کنویں میں اللہ کے نبی یعقوب علیہ السلام کو یوسف علیہ السلام کی خبر نہ ہو سکی۔ نہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے دل میں کھٹکا تک ہوا کہ والد ماجد سے تو کوئی چیز چھپی رہتی نہیں، ہمارا مکر کیسے کامیاب ہو گا؟ تو ان کے حضرت صاحبان لوح محفوظ تک کیسے پہنچ گئے؟ یہاں ایک سوال ہے کہ یعقوب علیہ السلام نے اس وقت یوسف علیہ السلام کو تلاش کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ جواب یہ ہے کہ وجہ یہ تھی کہ ان کی تلاش بھی انھی بھائیوں ہی نے کرنا تھی، وہ خود تو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے کمزور تھے۔ چنانچہ جب موقع مناسب جانا انھی بھائیوں کو حکم دیا کہ جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو، فرمایا : ﴿ فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَ اَخِيْهِ ﴾ [ یوسف : ۸۷ ]’’یوسف اور اس کے بھائی کا سراغ لگاؤ۔‘‘