يَوْمَ يَأْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ
جس دن وہ آجائے گا کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر بات نہیں کرپائے گا۔ ان میں سے کوئی بد بخت ہوگا اور کوئی نیک بخت۔“ (١٠٥)
1۔ يَوْمَ يَاْتِ: یہاں چند آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس دن کا کچھ نقشہ بیان فرمایا ہے۔ ’’ يَاْتِ ‘‘ اصل میں ’’ يَأْتِيْ ‘‘ ہی ہے۔ زمخشری نے لکھا ’’يَوْمَ يَاْتِ ‘‘ کی طرح ’’ لَا أَدْرِ‘‘ بھی کہہ دیتے ہیں۔ سیبویہ اور خلیل نے یہ بیان فرمایا ہے کہ یاء کو حذف کرکے اس کی جگہ کسرہ پر اکتفا کرنا ہذیل کی لغت میں بہت ہے (یعنی دوسری لغات میں بھی ہے مگر کم ہے)۔ ’’يَاْتِ ‘‘ کا فاعل وہی ہے جو اوپر گزرا ’’ يَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ لَّهُ النَّاسُ ‘‘۔ ’’يَوْمٌ ‘‘ کا لفظ عربی میں وقت کے معنی میں بھی آتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ’’التحرير والتنوير لابن عاشور‘‘ یعنی جس دن وہ وقت آئے گا، یا جس وقت وہ دن آئے گا۔ زمخشری نے ایک معنی یہ لکھا ہے کہ جس دن اللہ تعالیٰ آئے گا، یعنی ’’ يَاْتِ ‘‘ کا فاعل اللہ تعالیٰ ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ جَآءَ رَبُّكَ وَ الْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا ﴾ [ الفجر : ۲۲] ’’اور تیرا رب آئے گا اور فرشتے جو صف در صف ہوں گے۔‘‘ 2۔ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ: یہاں سے نصرانیوں کی اور بعض مسلمانوں کی اس سفارش کا رد ہو گیا جو ان کے خیال میں کچھ ہستیوں کے اختیار میں ہے کہ وہ اللہ کے محبوب ہونے یا بڑے زبردست ہونے کی وجہ سے جسے چاہیں گے چھڑا لیں گے، حالانکہ وہاں اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کسی کو بات کرنے کی جرأت ہی نہیں ہو گی۔ دیکھیے سورۂ نبا (۳۸)۔ 3۔ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَّ سَعِيْدٌ : ’’شَقِيٌّ ‘‘ بروزن ’’فَعِيْلٌ‘‘ مبالغہ کے لیے ہے ۔ قاموس میں ہے ’’اَلشَّقَا‘‘ کو کبھی ’’اَلشَّقَاءُ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، سختی، تنگی۔ ’’شَقِيَ يَشْقٰي‘‘ (ع) یہ ’’رَضِيَ يَرْضٰي‘‘ کی طرح ہے، یعنی ناقص واوی ہے۔ زمخشری نے فرمایا : ’’اَلَّذِيْ وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ بِإِسَاءَتِهِ ‘‘ یعنی وہ بدبخت جس کے لیے اس کی بدعملی کی وجہ سے آگ واجب ہو گئی۔ ’’سَعِيْدٌ ‘‘ وہ خوش قسمت جس کے لیے اس کے نیک اعمال کی وجہ سے جنت واجب ہو گئی۔