سورة یونس - آیت 93

وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ فَمَا اخْتَلَفُوا حَتَّىٰ جَاءَهُمُ الْعِلْمُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور البتہ تحقیق ہم نے بنی اسرائیل کو ٹھکا نہ دیا، باعزت ٹھکا نہ، اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا پھر انہوں نے اختلاف نہیں کیا، یہاں تک کہ ان کے پاس علم آگیا، بلاشبہ تیرا رب قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔“ (٩٣)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ ....: ’’مُبَوَّاَ ‘‘ (ٹھکانا)کی’’صِدْقٍ ‘‘ کی طرف اضافت کا مطلب اس کی تعریف ہے، یعنی بہترین باعزت ٹھکانا۔ اہل عرب جس چیز کی تعریف کرنا چاہیں اسے ’’صِدْقٌ‘‘ کی طرف مضاف کر دیتے ہیں، جیسے کہتے ہیں : ’’رَجُلُ صِدْقٍ‘‘ ’’سچ مچ کا آدمی۔‘‘ فرمایا: ﴿ اَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ ﴾ [ یونس:۲ ] اور فرمایا : ﴿ وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ ﴾ [ بنی إسرائیل : ۸۰ ] یعنی ہم نے بنی اسرائیل کو نہایت باعزت ٹھکانا، حکومت اور وافر صاف ستھری چیزیں کھانے کے لیے عطا فرمائیں۔ ان بنی اسرائیل سے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی مراد لینا تو مشکل ہے، کیونکہ وہ تو موسیٰ علیہ السلام کے حکم پر جہاد کے لیے نکلنے سے صاف انکار کی پاداش میں چالیس سال صحرائے سینا ہی میں بھٹکتے رہے تھے، البتہ ان کے بعد یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں نئی نسل نے فلسطین اور شام اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق فتح کیے، وعدہ یہ تھا : ﴿ يٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِيْ كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ ﴾ [ المائدۃ : ۲۱ ] ’’اے میری قوم! اس مقدس زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمھارے لیے لکھ دی ہے۔‘‘ پھر مصر پر بھی بنی اسرائیل کی حکومت قائم ہو گئی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ كَذٰلِكَ وَ اَوْرَثْنٰهَا بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ ﴾ [ الشعراء : ۵۹ ] ’’ایسے ہی ہوا اور ہم نے ان کا وارث بنی اسرائیل کو بنا دیا۔‘‘ پھر بنی اسرائیل پر حکومت اور غلامی کے کئی دور آئے، کبھی داؤد اور سلیمان علیہما السلام جیسے عظیم الشان حکمران آئے اور کبھی بخت نصر اور دوسرے کفار کے ہاتھوں ان کی پامالی ہوئی اور اس پامالی کا سبب ہمیشہ ان کا اختلاف بنا، جس کا باعث ان کی لاعلمی نہ تھا بلکہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے وہ احبار و رہبان کو رب بنا کر مختلف سیاسی اور دینی فرقوں میں بٹ گئے تھے۔ احادیث میں ان کے بہتر (۷۲) فرقوں کا ذکر ہے، ان میں صحیح کون تھا اور غلط کون! یہ فیصلہ اب قیامت کے دن رب تعالیٰ ہی فرمائیں گے۔ 2۔ ’’ فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰى جَآءَهُمُ الْعِلْمُ ‘‘ کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ اللہ کی کتاب تورات کی صاف پیش گوئی کے مطابق بنی اسرائیل کا اتفاق تھا کہ خاتم النّبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے ہیں، کسی کا بھی اختلاف نہ تھا اور کوئی اس سے لا علم نہ تھا، بلکہ سب آپ کے آنے کے منتظر تھے اور آپ کے آنے کی دعا کرتے تھے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ۠ عَلَى الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ﴾ [ البقرۃ : ۸۹ ] ’’حالانکہ وہ اس سے پہلے ان لوگوں پر فتح طلب کیا کرتے تھے جنھوں نے کفر کیا۔‘‘ مگر جب آپ تشریف لے آئے تو آپ کو پہچان لینے کے بعد محض ضد اور حسد کی وجہ سے ان کا اتفاق اختلاف میں بدل گیا۔ کسی نے کہا، وہ ہیں ہی نہیں جن کے آنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ کسی نے کہا یہ ہمارے نہیں بلکہ صرف امیوں کے رسول ہیں۔ بعض خوش نصیبوں نے ایمان قبول بھی کر لیا، بہرحال علم کے بعد اختلاف کا فیصلہ اب رب تعالیٰ ہی فرمائیں گے۔