سورة یونس - آیت 64

لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

ان کے لیے دنیا کی زندگی میں خوشخبری ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ کے ارشادات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔“ (٦٤)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لَهُمُ الْبُشْرٰى فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ....: ’’لَهُمُ ‘‘ پہلے آنے کی وجہ سے حصر کا معنی پیدا ہو گیا، یعنی دنیا کی زندگی میں خاص خوش خبری انھی کے لیے ہے۔ اس میں کئی چیزیں شامل ہیں : (1) پاکیزہ اور صاف ستھری زندگی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ﴾ [ النحل : ۹۷ ] ’’جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقیناً ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی۔‘‘ (2) تقدیر پر ایمان کی وجہ سے کفار جیسی بے صبری اور خوف و غم سے محفوظ رہنا، جیسا کہ اوپر گزرا ہے اور فرمایا : ﴿ اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا (19) اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوْعًا (20) وَ اِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوْعًا (21) اِلَّا الْمُصَلِّيْنَ ﴾ [ المعارج : ۱۹ تا ۲۲ ] ’’بلاشبہ انسان تھڑدلا بنایا گیا ہے۔ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جانے والا ہے۔ اور جب اسے بھلائی ملتی ہے تو بہت روکنے والا ہے۔ سوائے نماز ادا کرنے والوں کے۔‘‘ پھر ان نمازیوں کی چند صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا : ﴿ اُولٰٓىِٕكَ فِيْ جَنّٰتٍ مُّكْرَمُوْنَ ﴾ [ المعارج : ۳۵ ] ’’یہی لوگ جنتوں میں عزت دیے جانے والے ہیں۔‘‘ (3) اچھے خواب، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا : (( لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ ، قَالُوْا وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ )) [ بخاری، التعبیر، باب المبشرات : ۶۹۹۰ ] ’’نبوت میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی مگر مبشرات (بشارت والی چیزیں)۔‘‘ لوگوں نے پوچھا : ’’مبشرات کیا ہیں؟‘‘ فرمایا : ’’اچھے خواب۔‘‘ (4) وہ بشارت بھی اس میں شامل ہو سکتی ہے جو دنیا کے آخری وقت میں فرشتے اسے موت کے وقت دیتے ہیں۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں: (( اَلْمُؤْمِنُ إِذَا حَضَرَهُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَانِ اللّٰهِ وَكَرَامَتِهٖ فَلَيْسَ شَيْئٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا أَمَامَهُ فَأَحَبَّ لِقَاءَ اللّٰهِ وَأَحَبَّ اللّٰهُ لِقَاءَهُ )) [ بخاری، الرقاق، باب من أحب لقاء اللّٰہ....: ۶۵۰۷ ] ’’ مومن کے پاس جب موت حاضر ہوتی ہے تو اسے اللہ کی رضا اور اس کی طرف سے عزت عطا ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے۔ اس وقت مومن کو کوئی چیز اس سے زیادہ عزیز نہیں ہوتی جو اس کے آگے (جنت اور اللہ کی رضا کی صورت میں) ہوتی ہے، تو وہ اللہ کی ملاقات محبوب رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے (جبکہ کافر کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے)۔‘‘ (5) لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے محبت ہونا اور لوگوں کا اس کی تعریف اور مدح و ثنا کرنا، اگرچہ وہ عبادت اس لیے نہیں کرتا بلکہ محض اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے، مگر اللہ نیک لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے محبت رکھ دیتا ہے۔ دیکھیے سورۂ مریم (۹۶) ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا : ’’یہ بتائیں کہ آدمی خیر کا کوئی عمل کرتا ہے اور لوگ اس پر اس کی تعریف کرتے ہیں؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( تِلْكَ عَاجِلُ بُشْرَی الْمُؤْمِنِ )) [ مسلم، البر والصلۃ، باب إذا أثنی علی الصالح ....: ۲۶۴۲ ] ’’یہ مومن کو جلد ملنے والی خوش خبری ہے۔‘‘ (6)دعاؤں کی قبولیت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللّٰهِ مَنْ لَّوْ أَقْسَمَ عَلَی اللّٰهِ لَأَبَرَّهُ )) [ بخاری، الصلح، باب الصلح في الدیۃ : ۲۷۰۳ ] ’’اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے بندے ہیں کہ اگر اللہ پر قسم ڈال دیں تو وہ اسے پورا کر دے۔‘‘ وَ فِي الْاٰخِرَةِ: اس سے وہ تمام بشارتیں مراد ہیں جو مومنوں کو آخرت میں دی گئی ہیں۔ دیکھیے سورۂ زمر (۲۰) اور شوریٰ (۲۲، ۲۳) اور بہت ہی بڑی نعمتیں، مثلاً موت کا ذبح کر دیا جانا، ہمیشہ جنت میں رہنا، اللہ تعالیٰ کا ان سے راضی ہونا اور اللہ تعالیٰ کا دیدار۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی یہ نعمتیں عطا فرمائے۔ (آمین) یہ تمام چیزیں قرآن مجید اور صحیح احادیث میں موجود ہیں۔ لَا تَبْدِيْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ : لہٰذا اس کے وہ وعدے پورے ہو کر رہیں گے جو اس نے اہل ایمان سے کر رکھے ہیں۔ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ : ’’هُوَ ‘‘ ضمیر فصل کہلاتی ہے۔ اس کے تین فائدے ہوتے ہیں، ایک تاکید، دوسرا حصر اور تیسرا موصوف صفت اور مبتدا و خبر میں فرق۔ محلاً اس کا اعراب کچھ نہیں ہوتا، اس لیے ترجمہ ہے ’’یہی بہت بڑی کامیابی ہے ‘‘ اس کے سوا اول تو کوئی کامیابی وجود ہی نہیں رکھتی، اگر مان بھی لی جائے تو وہ بے حیثیت ہے، اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔