وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ ۚ وَمَا يَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ
” اور نہیں ہوتے آپ کسی حالت میں اور نہ اس کی طرف سے آنے والے قرآن میں سے کچھ تلاوت کرتے ہیں اور نہ تم کوئی عمل کرتے ہو مگر ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں، جب تم اس میں شروع ہوتے ہو اور تیرے رب سے کوئی ذرہ بھر چیز نہ زمین میں پوشیدہ ہوتی ہے اور نہ آسمان میں اور نہ اس سے کوئی چھوٹی چیز ہے اور نہ بڑی مگر واضح کتاب میں موجود ہے۔“ (٦١)
1۔ وَ مَا تَكُوْنُ فِيْ شَاْنٍ ....: اس آیت کے شرو ع میں دو صیغے ’’ تَكُوْنُ ‘‘ اور ’’ تَتْلُوْا ‘‘ واحد مذکر حاضر کے ہیں جن کا معنی ’’تو‘‘ ہے اور دو صیغے ’’تَعْمَلُوْنَ ‘‘ اور ’’تُفِيْضُوْنَ ‘‘ جمع مذکر حاضر کے ہیں جن کا معنی ’’تم‘‘ ہے۔ مفسرین نے اس کی تفسیر دو طرح سے کی ہے، ایک تو یہ کہ پہلے دونوں الفاظ کے مخاطب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور بعد والے دونوں الفاظ کے مخاطب تمام لوگ ہیں۔ متن میں آیت کا ترجمہ لفظوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ پہلے دونوں الفاظ میں خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، مگر اس میں بھی تمام لوگ شامل ہیں، اس لیے بعد والے صیغے جمع لائے گئے ہیں، مراد ہر مخاطب ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ۠ لِعِدَّتِهِنَّ ﴾ [ الطلاق : ۱ ] ’’اے نبی! جب تم (لوگ) عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو۔‘‘ اس میں ابتدا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے تمام امت کو شامل کر لیا ہے۔ یعنی لوگوں میں سے کوئی بھی کسی حال میں ہو، قرآن پڑھ رہا ہو یا کوئی اور عمل کر رہا ہو اللہ تعالیٰ اس پر شاہد ہوتا ہے۔ یہ تفسیر بھی صحیح ہے۔ 2۔ ’’ شَاْنٍ ‘‘ کا معنی حال ہے، مگر ایسا حال جو اہمیت رکھتا ہو، جیسے فرمایا : ﴿ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ ﴾ [ الرحمٰن : ۲۹ ] ’’ہر دن وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔‘‘ یہ لفظ معمولی اور حقیر کام پر نہیں بولا جاتا۔ 3۔ وَ مَا تَتْلُوْا مِنْهُ : ’’ مِنْهُ ‘‘ کی ضمیر کے متعلق مفسرین نے بہت سے احتمال ذکر فرمائے ہیں کہ یہ کس کی طرف لوٹتی ہے، وہ سب درست ہیں، مگر میری دانست میں ان میں سب سے آسان اور واضح وہ ہے جو ترجمہ سے ظاہر ہو رہا ہے، یعنی یہ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہے، کیونکہ قرآن اسی کی طرف سے آیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف ضمیر لوٹانے کے لیے اس کا پہلے ذکر ہونا ضروری نہیں، کیونکہ وہ ہر وقت ہر ذہن میں موجود ہے۔ 4۔ وَ لَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ ....: اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے لیے تسلی کا پیغام ہے کہ آپ کی بندگی کی ہر ہر ادا اور عمل ہمارے سامنے ہے اور مخالفین کے لیے وعید ہے کہ تم جو عمل کرتے ہو، تمھارے اس کام میں مشغول ہوتے ہی ہم بھی گواہ ہوتے ہیں، نہ ہم اس سے بے خبر ہیں، نہ تم اس کی سزا سے بچ سکو گے۔ 5۔ وَ مَا يَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ ....: یہ بعض جاہل فلسفیوں کی اس بات کی تردید ہے کہ اللہ تعالیٰ کلیات کو جانتا ہے جزئیات کو نہیں جانتا، بڑی بڑی باتیں اس کے علم میں آتی ہیں، چھوٹی باتیں نہیں۔ ’’ذَرَّةٍ ‘‘ سب سے چھوٹی چیونٹی کو بھی کہتے ہیں اور روشن دان وغیرہ سے آنے والی روشنی کے اندر بکھرے ہوئے باریک ذروں کو بھی۔ فرمایا کہ زمین ہو یا آسمان اس میں نہ ایک ذرہ برابر چیز اس سے غائب ہے، نہ اس سے بھی چھوٹی یا بڑی کوئی چیز، بلکہ وہ سب کتاب مبین میں ہیں۔ کتاب مبین کا معنی لوح محفوظ بھی کرتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا علم بھی۔ اسی آیت کی ہم معنی سورۂ انعام کی آیات (۵۹، ۶۰) ہیں۔