سورة یونس - آیت 23

فَلَمَّا أَنجَاهُمْ إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَىٰ أَنفُسِكُم ۖ مَّتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

پھر جب وہ انھیں نجات دے دیتا ہے تو اچانک وہ زمین میں ناحق سرکشی کرنے لگتے ہیں۔ اے لوگو! تمھاری سرکشی تمھارے ہی برخلاف ہے۔ دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے پھر ہماری ہی طرف تمھارا لوٹ کر آنا ہے تو ہم تمھیں خبر دیں گے جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔“ (٢٣)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَلَمَّاۤ اَنْجٰىهُمْ اِذَا هُمْ يَبْغُوْنَ....: یعنی طوفان سے بچ نکلنے پر پھر وہی ناحق سرکشی اور ظلم شروع کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ مشرکین کے اس رویے کا ذکر فرمایا ہے۔ دیکھیے سورۂ عنکبوت ( ۶۵، ۶۶) اور لقمان ( ۳۲) ہاں، کوئی سعادت مند ہو تو اپنے عہد پر قائم رہتا ہے مگر وہ اتنے کم ہیں کہ نہ ہونے کے برابر ہیں، جیسا کہ سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن چار مردوں اور دو عورتوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ جہاں پائے جائیں قتل کر دیے جائیں۔ ان میں سے ایک عکرمہ بن ابوجہل بھی تھے۔ عکرمہ نے یہ سنا تو سمندر کے راستے راہ فرار اختیار کی، لیکن جب سفر شروع ہوا تو کشتی والوں کو تند و تیز ہوا نے آ لیا۔ (لوگ اپنے اپنے خداؤں کو پکارنے لگے) کشتی والوں نے کہا : (( أَخْلِصُوْا فَإِنَّ آلِهَتَكُمْ لاَ تُغْنِيْ عَنْكُمْ شَيْئًا هٰهُنَا، فَقَالَ عِكْرِمَةُ وَاللّٰهِ! لَئِنْ لَمْ يُنَجِّنِيْ مِنَ الْبَحْرِ إِلاَّ الْإِخْلَاصُ لَا يُنَجِّيْنِيْ فِي الْبَرِّ غَيْرُهٗ، اَللّٰهُمَّ إِنَّ لَكَ عَلَيَّ عَهْدًا إِنْ أَنْتَ عَافَيْتَنِيْ مِمَّا أَنَا فِيْهِ أَنْ آتِيَ مُحَمَّدًا صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتّٰي أَضَعَ يَدِيْ فِيْ یَدِہٖ فَلَأَجِدَنَّهُ عَفُوًّا كَرِيْمًا فَجَاءَ فَأَسْلَمَ )) [ نسائی، تحریم الدم، باب الحکم فی المرتد : ۴۰۷۲، وصححہ الألباني ] ’’خالص اللہ کو پکارو، کیونکہ اس وقت یہاں تمھارے (خود ساختہ) معبود تمھارے کچھ کام نہیں آئیں گے۔‘‘ عکرمہ نے (دل میں) کہا : ’’اللہ کی قسم! اگر سمندر میں نجات صرف اللہ تعالیٰ کی ذات دے سکتی ہے تو پھر خشکی میں بھی اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا، اے اللہ! اگر تو نے مجھے اس طوفان سے نجات دے دی تو میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جا کر اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دوں گا،تو یقیناً میں انھیں بہت درگزر کرنے والا، بہت مہربان پاؤں گا۔‘‘ چنانچہ وہ آئے اور مسلمان ہو گئے۔‘‘ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ....: یعنی اس سرکشی کا وبال تمھاری اپنی ہی جانوں پر ہے، اس سے تم کسی اور کو نقصان نہیں پہنچا سکو گے، دنیوی زندگی کا تھوڑا سا فائدہ اٹھا لو، آخر تمھیں ہمارے پاس ہی آنا ہے، پھر ہم تمھیں بتلائیں گے کہ تم کیا کرتے رہے ہو، یعنی پھر ہم تمھیں ایسی سزا دیں گے جس سے تمھیں پتا چل جائے گا کہ تم کتنا بھاری ظلم کرتے رہے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ يُّعَجِّلَ اللّٰهُ تَعَالٰی لِصَاحِبِهٖ الْعُقُوْبَةَ فِي الدُّنْيَا مَعَ مَا يَدَّخِرُ لَهٗ فِي الْآخِرَةِ مِثْلُ الْبَغْيِ وَقَطِيْعَةِ الرَّحِمِ )) [ أبوداؤد، الأدب، باب فی النہي عن البغی: ۴۹۰۲، عن أبي بکرۃ رضی اللّٰہ عنہ ]’’کوئی گناہ اس لائق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی سزا دنیا میں بھی جلدی دے اور اس کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی اس کی سزا باقی رکھے سوائے ظلم و زیادتی اور قطع رحمی کے۔ ‘‘