سورة التوبہ - آیت 121

وَلَا يُنفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً وَلَا يَقْطَعُونَ وَادِيًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور نہ وہ خرچ کرتے ہیں کوئی چھوٹا اور نہ کوئی بڑا اور نہ کوئی وادی طے کرتے ہیں مگر وہ ان کے لیے لکھ لیا جاتا ہے، تاکہ اللہ انھیں اس عمل کی بہترین جزا دے جو وہ کیا کرتے تھے۔“ (١٢١)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَا يُنْفِقُوْنَ نَفَقَةً صَغِيْرَةً....: پچھلی آیت میں جہاد میں کیے جانے والے وہ اعمال بھی ہیں جو انسان کے اختیار میں ہیں اور وہ بھی جو بے اختیار پیش آتے ہیں، مثلاً مشکلات و مصائب، اس آیت میں صرف ان اعمال کا ذکر ہے جو آدمی کے اختیار میں ہیں، مگر جہاد فی سبیل اللہ کی بنیاد ہیں، یعنی زادِ سفر، سواری اور اسلحہ پر جو میسر ہو خرچ کرنا، پھر سفر جہاد پر نکل کھڑے ہونا اور جنگل اور وادیاں طے کرتے چلے جانا، سب کچھ لکھا جاتا ہے۔ 2۔ اس جنگ میں عثمان رضی اللہ عنہ نے لشکر کی تیاری میں سب سے بڑھ کر حصہ لیا، یعنی ’’نفقہ کبیرہ ‘‘(بڑا خرچ) اور انھوں نے اس وقت صحابہ کو مخاطب کرکے اس کا ذکر بھی فرمایا تھا جب باغیوں نے ان کا محاصرہ کیا کہ کیا تم جانتے ہو کہ میں نے ’’جَيْشُ الْعُسْرَةِ‘‘ (تنگ دستی کے وقت کے لشکر) کا سامان تیار کیا تھا؟ تمام صحابہ نے اس کا اعتراف کیا۔ [ ترمذی، المناقب، باب فی عد عثمان تسمیتہ شہیدا....: ۳۶۹۹، وحسنہ الألبانی ] تفصیل اس کی یہ ہے کہ عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ایک ہزار دینار اپنی آستین میں لے کر آئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’جَيْشُ الْعُسْرَةِ‘‘ کو تیار کیا تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں ڈال دیا۔ عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ انھیں اپنی گود میں الٹ پلٹ کرتے تھے اور فرماتے تھے : ’’آج کے بعد عثمان جو کام بھی کرے اسے کچھ نقصان نہیں دے گا۔‘‘ دو مرتبہ فرمایا۔ [ترمذی، المناقب، باب فی عد عثمان تسمیتہ شہیدا....: ۳۷۰۰، ۳۷۰۱، و حسنہ الألبانی] اور کم خرچ کرنے والے (نفقہ صغیرہ) وہ بھی تھے جو رات بھر محنت کرکے نصف صاع (۱ کلو) کھجوریں لے کر آئے۔ دیکھیے سورۂ توبہ آیت (۷۹) کی تفسیر۔ وَ لَا يَقْطَعُوْنَ وَادِيًا اِلَّا كُتِبَ لَهُمْ: پہاڑوں کے درمیان کے میدان اور پانی کی گزرگاہ کو وادی کہتے ہیں، یعنی ہر وادی طے کرنے پر وہ ان کے نامۂ اعمال میں لکھ دی جاتی ہے۔ لِيَجْزِيَهُمُ اللّٰهُ اَحْسَنَ....: یہ سب کچھ اس لیے لکھا جاتا ہے کہ کسی بھی عمل کی زیادہ سے زیادہ اچھی جزا جو ہو سکتی ہے اللہ تعالیٰ انھیں وہ عطا فرمائے۔