سورة التوبہ - آیت 95

سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ إِذَا انقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْهُمْ ۖ فَأَعْرِضُوا عَنْهُمْ ۖ إِنَّهُمْ رِجْسٌ ۖ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” وہ عنقریب تمھارے سامنے اللہ کی قسمیں اٹھائیں گے جب تم ان کی طرف لوٹو گے تاکہ تم ان سے اعراض کرو سو ان سے اعراض کرو، بے شک وہ گندے ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے، اس کے سبب جو وہ کماتے رہے ہیں۔“ (٩٥)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

سَيَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَيْهِمْ....: اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ تمھارے سامنے اللہ کی قسم کھانے سے ان کا مقصد یہ ہے کہ تم ان سے اعراض کرو، سو واقعی تم ان سے اعراض کرو۔ پہلے اعراض کا مطلب ہے کہ تم ان سے درگزر اور چشم پوشی کرو اور دوسرے اعراض کا مطلب یہ ہے کہ تم ان سے درگزر اور چشم پوشی کے ساتھ قطع تعلق بھی کرو۔ پھر ان سے قطع تعلق کا سبب بیان فرمایا کہ یہ رجس ہیں، جس کا معنی ’’گندگی‘‘ ہے، یعنی عقائد و اعمال کے لحاظ سے وہ اتنے گندے ہیں کہ سمجھو سراسر گندگی ہیں، گندگی کی پوٹ ہیں۔ گندگی سے تعلق کا نتیجہ آلودگی ہی ہے، اس لیے ان سے بچ جاؤ، تاکہ کہیں ان سے متاثر نہ ہو جاؤ۔ ’’صحبت طالح ترا طالح کند‘‘ پھر ان کا انجام بیان فرمایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے چشم پوشی اور درگزر ہی سے کام لیا۔ چنانچہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ (ان تین مخلص مسلمانوں میں سے ایک جو بلاعذر پیچھے رہ گئے تھے) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس آتے تو مسجد سے ابتدا کرتے، چنانچہ آپ لوگوں کے لیے بیٹھ گئے تو پیچھے رہ جانے والے آئے اور عذر پیش کرنے لگے اور آپ کے سامنے قسمیں کھانے لگے، یہ اسی (۸۰) سے کچھ زیادہ لوگ تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ظاہر کو قبول فرمایا، ان سے بیعت لی، ان کے لیے استغفار کیا اور ان کے پوشیدہ معاملات اللہ کے سپرد کر دیے۔ [ بخاری، المغازی، باب حدیث کعب بن مالک رضی اللّٰہ عنہ....:۴۴۱۸ ]