سورة التوبہ - آیت 42

لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ وَلَٰكِن بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ ۚ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اگر جلدی ملنے والا اور درمیانہ سفرہوتا تو وہ ضرور آپ کے پیچھے آتے لیکن انہیں سفرکی دوری مشکل نظر آئی اور عنقریب وہ اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم طاقت رکھتے تو تمہارے ساتھ ضرور نکلتے وہ اپنے آپ کو ہلاک کر رہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ بے شک وہ جھوٹے ہیں۔“ (٤٢)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيْبًا....: یہ آیت غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ ’’عَرَضًا ‘‘ دنیا کا وہ سازو سامان جو انسان کی خواہشوں کے پیش نظر رہتا ہے۔ ’’قَرِيْبًا ‘‘ جس کا حصول بالکل آسان ہو۔ ’’قَاصِدًا ‘‘ درمیانہ، یعنی جس میں شدید مشقت درپیش نہ ہوتی۔ ’’الشُّقَّةُ ‘‘ وہ فاصلہ جو نہایت مشقت اور تھکن سے طے ہو۔ یہ مشقت سے مشتق ہے۔ ابو عبیدہ نے فرمایا ’’الشُّقَّةُ ‘‘ کا معنی ارضِ بعید کا سفر ہے، یعنی اگر آسانی سے مالِ غنیمت ملنے کی توقع ہوتی اور سفر بہت لمبا نہ ہوتا، جس کا راستہ بھی نہایت کٹھن تھا تو یہ لوگ ضرور آپ کے ساتھ جاتے۔ مگر خالص فی سبیل اللہ جہاد جس میں آسانی سے حصولِ غنیمت کے بجائے مال و جان کی قربانی، بعید سفر اور شہادت کا واضح امکان سامنے ہو، منافق کے لیے نہایت دشوار ہے۔